سوال : جب رسول کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے، تو پھر سورۂ توبہ میں کفار سے تلوار کے ذریعے جزیہ لینے اور جنگ کا حکم کیوں دیا گیا؟ کیا یہ اسلام کو بزور منوانے کا ثبوت نہیں؟؟
اعتراض:
آیت نمبر 1
قاتلوا الذين لايؤمنون بالله ولا باليوم الاخر ولايحرمون ما حرم الله ورسوله ولايدينون دين الحق من الذين أوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صغرون .
ترجمہ: اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں ۔
(سورۂ توبہ 29)
آیت نمبر 2 : فإنما علی رسولنا البلاغ المبين ۔
ترجمہ : رسول کے ذمہ تو صاف صاف پہنچادینا ہی ہے۔
(سورۂ تغابن 12)
ان آیات کو پیش کرکے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کفار کو تلوار کے زور پر اسلام قبول کروانے کا حکم ہے ۔
جواب:
دونوں آیات کا ترجمہ معترض کی طرف سے پیش کردہ تھا جوکہ سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے ۔
مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر اور عالمی منظر نامے پر ان کی شبیہ کو خراب کرنے کے لیے اتنی بڑی اخلاقی اور علمی بد دیانتی کو پیش کیا گیا ہے جس کی تفصیل کو سمجھنے کی سامنے رکھنے کی کبھی کوشش تک نہیں کی گئی ۔
سب سے پہلے معترض کی پیش کردہ دوسری آیت کا مکمل ترجمہ دیکھیے :
اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی ۔
آیت کا دوسرا حصہ ہے :
اگر تم منہ پھیرو تو جان لو کہ ہمارے رسول کی ذمہ داری صرف صریح پہنچادینا ہے ۔
اس آیت کا مطلب ہے کہ دین کے احکام کو صاف صاف پہنچادینا ہے تاکہ کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے ، اور پیغمبر اللہ کے احکام کو جو واضح کر دیتے ہیں اس کے نتیجے میں ہدایت کا راستہ گمراہی کے راستے سے جدا ہو جاتا ہے ، یہی طریقہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہر پیغمبر کا رہاہے کہ وہ سب سے پہلے لوگوں کو سچا مذہب دلائل کے ساتھ سمجھاتے ہیں یہاں تک کہ اتمامِ حجت کے لیے معجزات بھی پیش کرتے ہیں ۔
اب اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اتمامِ حجت کے بعد بھی لوگ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ، ستم بالائے ستم یہ کہ اسلام کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تاکہ وہ دین حق سے مڑجائیں ۔ اس تصویر کا نظارہ دیکھنا ہو تو پہلی ہجرت دیکھ لیجیے جو حبشہ کی طرف کی گئی تھی ، کفار مکہ حبشہ پہنچ کر مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اذیت دینے کی کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ شاہ حبشہ کی خدمت میں ہدایا پیش کیا تا کہ وہ مسلمانوں کو ستائیں ، مزید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا ستایا کہ آپ کو اپنا محبوب وطن مکۂ مکرمہ چھوڑ کر مدینۂ منورہ ہجرت کرنا پڑا ، پھر بھی کفار کو چین نہیں آیا کہ مسلمانوں سے جنگ کرنے کی ٹھانی اور حملہ کرنے میں اقدام کیا ، جس کا ثبوت جنگِ بدر ہے ۔ ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جہاد کا حکم دیاگیا جس کا ذکر معترض کی جانب سے پیش کی گئی پہلی آیت میں ہے تاکہ اللہ کے دین اور اس کے ماننے والوں کو حفظ و امان ملے ۔
اسی طرح آیت میں جزیہ دینے کی جو بات کہی گئی ہے وہ اہل کتاب کے لیے ہے تاکہ وہ اللہ کے دین کی طرف لوٹ آئیں ، کیوں کہ اہل کتاب کا معاملہ کفار سے مختلف ہے انہوں نے دین میں تحریف کی ہے اس لیے ان سے جزیہ قبول کیا جائے گا ۔
اور آج کی دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں اس کی وفاداری کی قسم نہ لی جاتی ہو ، اور غداری کی صورت میں قانونی طور پر سخت سزائیں نہ دی جاتی ہوں ۔
بل کہ ہر ملک کا ایک مضبوط دفاعی نظام ہوتا ہے ، جس کی سرپرستی میں یہ سارے امور انجام دییے جاتے ہیں ۔
جیسے امریکہ کی بغاوت اور غداری کی سزا ” موت ” ہے ۔
برطانیہ میں غداری کی سزا “عمر قید ” ہے ۔
لہذا ظلم کے خلاف ایکشن لینا ناحق نہیں بل کہ عین حق ہے ۔
اسلام کا اپنا ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس کو جب بھی توڑ کر دیکھا جائے گا تضاد ہی محسوس ہوگا ۔
اس لیے ایسی باتوں کا منصفانہ جائزہ لینا چاہیے تاکہ غلط فہمی اور گمراہی سے محفوظ رہ سکیں ۔
هذا وصلى الله عليه وآله وسلم .

