img
img

سوال :اگر قرآن میں کوئی تضاد نہیں، تو مریم کو ہارون (موسیٰ کے بھائی) کی بہن کیسے کہا گیا جب کہ ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے؟

اعتراض :

آیت 1 : ومريم ابنت عمرٰن التي أحصنت فرجها .
ترجمہ : عمران کی بیٹی(عیسی علیہ السلام کی ماں) کو مریم کہاگیا ۔
(سورۂ تحریم 12)

آیت 2 : وقال موسٰى لأخيه هٰرون .
ترجمہ: موسی ہارون کا بھائی
(سورۂ اعراف 142)
آیت 3 : يٰأخت هٰرون .
ترجمہ : اے ہارون کی بہن
(سورۂ مریم 28)
معترض ان آیات کو پیش کرکے یہ کہہ رہاہے کہ پہلے اللہ نے مریم کو عیسی کی ماں بنایا پھر ہارون جو کہ موسی کے بھائی تھے ان کی بہن بنادیا جب کہ دونوں کے درمیان چودہ سو سال کا فاصلہ ہے ، اور قرآن کا دعوی ہے کہ اس کی آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے ، ہم نے تضاد پیش کردیا جس کا مطلب یہ قرآن کلام اللہ نہیں ہے کسی کا گھڑا ہوا ہے ۔

جواب:

ان آیات میں کہیں بھی اعتراض نہیں ہے، کیا ایسا ممکن نہیں کہ ایک نام کے دو افراد ہوں یا متعدد اشخاص ہوں ۔
اس کے علاوہ اہلِ عرب کے اپنے لسانی اصول و ضوابط ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اہلِ عرب مختلف بنیادوں پر اپنی نسبت دوسری طرف کرلیتے ہیں ، اور یہ لسانی اصول قرآن کریم کا بھی اسلوب ہے ۔ جیسے
واذكر أخا عاد
حضرت ہود علیہ السلام کو عاد کا بھائی کہا جب کہ عاد ان کی قوم کے مورث اعلیٰ کا نام تھا ۔
اس کے علاوہ نسبتی اعتبار سے بھی قوم کی نسبت کسی ایک خاص فرد کی طرف کی جاتی ہے جیسے آج بھی بڑے قبائل کو ان کے بڑوں کی طرف منسوب کرکے بلایا جاتا ہے ، اس اعتبار سے بھی حضرت مریم کو يٰأخت هارون سے پکارا گیا ، اختِ ہارون اس لیے کہا گیا کیوں کہ وہ حضرت موسی کے بھائی حضرت ہارون کی نسل سے تھیں اس لیے قرآن کریم کے ایسے مقامات پر غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ قرآن فصاحت و بلاغت کے اعلی درجے پر فائز ہے ، اللہ ہمیں ہدایت دے آمین ۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *