img
img

سوال : اگر خدا ہے تو دنیا میں اتنی برائی کیوں ہے؟

جواب :
دنیا میں موجود برائی اور ظلم کو دیکھ کر بعض دہریہ سوال کرتے ہیں کہ اگر اللہ واقعی موجود ہے، اور وہ قادرِ مطلق ہے، تو دنیا میں ظلم، تکلیف، جنگیں، بیماریاں، بھوک، زلزلے، بمباری، معصوم بچوں کی موت کیوں ہے؟ یہ سوال جذباتی بھی ہے اور فکری بھی۔ مگر اس کا مفصل اور علمی جواب موجود ہے۔

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ برائی کا وجود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کسی بلند تر “اخلاقی معیار” کو مانتا ہے، ورنہ اگر کائنات بے مقصد، اندھی، اور خالص اتفاق سے بنی ہو، تو کسی واقعے کو “برائی” یا “ظلم” کہنا ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ دہریہ نظریہ میں کوئی حتمی اخلاقی معیار ممکن نہیں، کیونکہ نہ خالق ہے، نہ جواب دہی کا تصور، نہ کوئی ابدی ضابطہ۔ تو اگر خدا کو نہ مانا جائے، تو برائی پر اعتراض کرنا بھی بے بنیاد ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آزمائش کا گھر بنایا ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے: “الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا” (الملک: 2) کہ “وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون بہترین عمل کرتا ہے۔” اس دنیا میں اچھے اور برے، ظالم اور مظلوم، سچ اور جھوٹ؛ سب کو یکساں آزمایا جاتا ہے۔ برائی اس آزمائش کا حصہ ہے، اور انسان کو آزاد ارادہ دیا گیا ہے کہ وہ خیر کو چنے یا شر کو۔

اگر دنیا میں ہر ظالم کو فوراً سزا ملے اور ہر نیکی کرنے والے کو فوراً انعام، تو امتحان کا نظام خود بخود ختم ہو جائے۔ پھر تو انسان نیکی صرف فائدے کے لیے کرے گا، ایمان صرف ظاہری مظاہر کی وجہ سے لائے گا، اور خوفِ سزا یا لالچِ انعام کے بغیر کوئی اخلاقی عمل ممکن نہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شعور، وحی، ضمیر، انبیاء اور عقل دی تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کرے، اور اس کا فیصلہ قیامت کے دن انصاف کے ساتھ ہوگا۔

قرآن میں ہے: “وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ…”** (البقرہ: 155) کہ “ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف، بھوک، مال و جان و ثمرات کی کمی سے۔” ان آزمائشوں کا مقصد انسان کو پاک کرنا، آزمانا اور اس کی حقیقت کو ظاہر کرنا ہے۔

سائنس بھی یہ بتاتی ہے کہ کائنات کا نظام ایسے ہے کہ یہاں تغیر، تبدیلی، اور تصادم لازم ہیں۔ پلیٹ ٹیکٹونکس زلزلے پیدا کرتی ہے، مگر یہی نظام زمین کی زندگی کو بھی ممکن بناتا ہے۔ وائرس اور بیکٹیریا کئی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں، لیکن انہی کی بدولت زندگی کی بقا بھی ممکن ہے (جیسے نظامِ ہضم، قوتِ مدافعت)۔ برائی صرف سطحی طور پر بری نظر آتی ہے، مگر کئی برائیاں دراصل بڑے خیر کا سبب بن جاتی ہیں۔ مثلاً ایک بیماری کسی انسان کو متوجہ کرتی ہے، اس کا غرور توڑتی ہے، اسے دعا و توبہ پر مجبور کرتی ہے۔

اور اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ظالم نہیں ہے:، قرآن کہتا ہے “وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ” (فصلت: 46) “اور تیرا رب بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا۔” اکثر مصیبتیں انسان کی اپنی کمائی ہوتی ہیں: “ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ” (الروم: 41) کہ “خشکی و تری میں فساد ظاہر ہوا لوگوں کے اعمال کی وجہ سے۔”

خلاصہ یہ کہ دنیا میں برائی کا ہونا خدا کی عدم موجودی نہیں، بلکہ اس کی حکمت، آزمائش، اور عدالت کا تقاضا ہے۔ اس دنیا میں کبھی کبھی ظالم بچ جاتا ہے، مگر آخرت میں کوئی ظلم چھپ نہیں سکتا۔ یہی وہ عدالت ہے جس پر ایمان لانا انصاف پر یقین رکھنے والوں کے لیے ناگزیر ہے۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *