سوال : اگر سب چیزیں خدا نے بنائیں تو خود خدا کو کس نے بنایا؟
جواب :
یہ سوال دہریوں کا وہ اعتراض ہے جو بظاہر نہایت منطقی اور معقول لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ سوال اپنی ساخت میں ہی باطل اور غلط مفروضے پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کا تعلق صرف سادہ فلسفہ اور منطق سے ہے اور اسے سمجھ لینا خدا کے وجود اور صفات کے بارے میں بڑی الجھنوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ”ہر چیز کو کسی نے پیدا کیا“ کا اصول صرف مخلوق (Created beings) پر لاگو ہوتا ہے، خالق (Creator) پر نہیں۔ اگر خدا کو بھی کسی نے پیدا کیا ہو، تو وہ خالق نہیں رہا، بلکہ وہ بھی مخلوق بن گیا اور پھر اس خالق کو بھی کسی اور نے پیدا کیا ہوگا، اور پھر اسے بھی، اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ اسے تسلسلِ علل (Infinite Regress) کہا جاتا ہے اور عقل کہتی ہے کہ ایسا لامتناہی تسلسل ممکن نہیں، بلکہ کہیں نہ کہیں جا کر ایک اول، ابدی، غیر مخلوق ہستی ہونی ضروری ہے جو سب کا سبب ہو، مگر خود کسی کی محتاج نہ ہو۔
قرآن اسی نکتے کو نہایت اختصار اور قطعیت سے بیان کرتا ہے:
“اللَّهُ الصَّمَدُ. لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ” (سورہ الإخلاص: 2–3) “اللہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔”
یہ وہ تصورِ خدا ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب یا فلسفے میں اتنی وضاحت اور قطعیت سے موجود نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی سب سے اہم صفت یہی ہے کہ وہ “واجب الوجود” ہے؛ یعنی جس کا ہونا ضروری ہے، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، جو زمان و مکان سے ماورا ہے، جسے کسی سبب، شئے، یا طاقت نے پیدا نہیں کیا۔ انسانی دماغ چونکہ عموماً مادی اشیاء، علت و معلول (cause & effect) کے نظام میں سوچتا ہے، اس لیے وہ خدا کے وجود کو بھی انہی قوانین کے تحت سمجھنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ یہ قوانین خود کائنات کے اندر کے ہیں، اور خدا کائنات کا خالق ہے، اس پر ان قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔
سائنس خود یہ تسلیم کرتی ہے کہ وقت اور مکان (Time and Space) بگ بینگ (Big Bang) کے ساتھ وجود میں آئے۔ اور اگر خدا بگ بینگ سے پہلے بھی موجود تھا، تو وہ لازماً وقت سے ماورا (timeless) اور مکان سے بلند تر (spaceless) ہوگا۔ اور جو ہستی وقت اور مکان سے بالا ہو، اس پر “پہلے” یا “بعد میں” پیدا ہونے کا سوال لگانا ہی غلط ہو جاتا ہے۔
یہ اعتراض ایسا ہی ہے جیسے کوئی پوچھے: “ایک دائرہ کا کون سا کونا سب سے نوکیلا ہے؟” یہ سوال اپنی اساس میں ہی غلط ہے، کیونکہ دائرہ کا سرے سے کوئی کونا ہی نہیں ہوتا۔ اسی طرح “خدا کو کس نے پیدا کیا؟” کا سوال اس فرض پر کھڑا ہے کہ خدا بھی پیدا ہوا ہے، جبکہ خدا کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ ازلی و ابدی ہے یعنی نہ اس کی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں اپنے وجود کے بارے میں فرماتا ہے:
“هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” (سورہ الحدید: 3) کہ “وہی اول ہے، وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے اور وہی باطن ہے، اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔”
ایک مثال سے بات مزید واضح ہو سکتی ہے: فرض کریں ایک شخص کہے کہ کمپیوٹر کو انجینئر نے بنایا، تو ہم پوچھیں: انجینئر کو کس نے بنایا؟ اس کے والدین نے۔ پھر ان کو؟ ان کے والدین نے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا، لیکن کہیں نہ کہیں جا کر ایک ایسا “آغاز” ہونا ضروری ہے جو “غیر محتاج” ہو۔ ورنہ یہ زنجیر کبھی قائم ہی نہ ہوتی۔ اللہ وہی غیر محتاج “ابتدائی آغاز” ہے Cause of all causes۔
خلاصہ یہ ہے کہ خدا کو کسی نے پیدا نہیں کیا، وہ خود خالق ہے، وہی ہر چیز کی علت ہے، اور اس پر “پیدا ہونے” کا سوال لاگو ہی نہیں ہوتا۔ یہی عقلاً، فطرتاً اور وحی کی روشنی میں واحد معقول تصورِ خدا ہے۔

