img
img

سوال :کیا خدا کو ماننا صرف جذباتی یا اندھا عقیدہ نہیں ہے؟

جواب :
بہت سے دہریہ یا سائنسی ذہن رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا پر ایمان رکھنا دراصل عقل سے فرار، جذباتی سہارا، یا اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔ ان کے مطابق جو لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ دراصل یا تو خوف، خواہش، کم علمی یا معاشرتی وراثت کے زیرِ اثر ہوتے ہیں اور کوئی “عقلی” بنیاد اس ایمان کی موجود نہیں ہوتی۔

یہ اعتراض ایک سطحی اور محدود نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ دراصل اللہ پر ایمان رکھنا جذباتیت نہیں بلکہ عقل، فطرت، منطق، اور تجربے کا تقاضا ہے۔ انسان جب کائنات، اپنی ذات، زندگی کے مقصد، شعور، اخلاق، وجدان، اور موت جیسے موضوعات پر غور کرتا ہے تو صرف خدا کا وجود ہی وہ واحد حقیقت ہے جو تمام الجھنوں کو سُلجھاتی ہے۔

سب سے پہلے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسانی عقل کے دائرے میں صرف مادی حقائق ہی نہیں آتے، بلکہ مابعدالطبیعیات (metaphysics) یعنی ماورا چیزوں کو جانچنے کی بھی صلاحیت عقل میں موجود ہے۔ عقل یہ سوال کرتی ہے:

یہ کائنات کہاں سے آئی؟
زندگی کیوں ہے؟
شعور، ضمیر، خواب، محبت، اخلاقیات، فن، موسیقی؛ یہ سب مادی اجزا سے کیسے نکلے؟
موت کے بعد کیا ہوگا؟

یہ سب وہ سوالات ہیں جن کا کوئی مادی یا سائنسی جواب کافی نہیں، اور انسان کو لازماً کسی بلند تر حقیقت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔

مزید یہ کہ عقل خود بھی خدا کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ کچھ مثالیں:

1. کائنات کا آغاز اور اس کا نظم
جیسے سائینس کہتی ہے کہ کائنات کا آغاز بگ بینگ (Big Bang) سے ہوا یعنی یہ ہمیشہ سے موجود نہیں تھی، بلکہ ایک لمحے میں وجود میں آئی۔ سوال یہ ہے: عدم سے “وجود” کیسے پیدا ہو گیا؟ کیا کوئی چیز بغیر کسی سبب کے پیدا ہو سکتی ہے؟ عقل کہتی ہے: نہیں۔ ہر چیز کا کوئی سبب ہوتا ہے۔
تو کائنات کا سبب کیا ہے؟ وہ سبب وہی ہستی ہے جو خود غیر محتاج، ازلی اور قادر ہو؛ یعنی خدا۔

2. کائناتی نظم و ترتیب
کائنات میں لاکھوں پیچیدہ عوامل ایک حیران کن ترتیب میں کام کرتے ہیں؛ کششِ ثقل، ہوا کی مقدار، پانی کا فارمولا، سورج کا فاصلہ، DNA کی کوڈنگ، دماغ کی نیورونز، اور کائنات کی فائن ٹیوننگ۔
کیا یہ سب اندھے اتفاقات سے ہو گیا؟
نہیں؛ عقل کہتی ہے کہ ترتیب، علم اور ارادے کے بغیر پیچیدگی اور ہم آہنگی ممکن نہیں۔
تو اگر ایک نظم ہے، تو کوئی ناظم بھی ہے۔

3. اخلاقیات اور ضمیر
انسان ظلم سے نفرت کرتا ہے، سچائی کو سراہتا ہے، قربانی کو عظمت مانتا ہے، اور برائی سے گریز کرتا ہے؛ یہ سب عقل و وجدان کی نشانیاں ہیں۔
اگر انسان صرف حیاتیاتی وجود ہوتا، تو ظلم و سچ میں فرق کیوں کرتا؟ کیا ایک شیر جب ہرن کو پھاڑتا ہے، تو اسے اخلاقی جرم مانا جاتا ہے؟
نہیں؛ کیونکہ وہ ضمیر اور شعور نہیں رکھتا۔ مگر انسان رکھتا ہے اور یہ شعور صرف ایک بلند تر اخلاقی ہستی کے وجود سے جڑتا ہے؛ جسے ہم خدا کہتے ہیں۔

4. خوف اور امید کا توازن
خدا پر ایمان انسان کو امید بھی دیتا ہے اور احتساب کا تصور بھی۔ جب انسان کو لگتا ہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا، تب وہ بھی جانتا ہے کہ ایک ہستی ہے جو ہر عمل سے باخبر ہے۔ یہی ایمان انسان کو ظلم سے روکتا ہے، تکبر سے بچاتا ہے، قربانی پر ابھارتا ہے، اور موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کرواتا ہے۔
کیا یہ سب صرف جذباتی تسلی ہے؟
نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل فکری، عملی، اخلاقی اور روحانی نظام ہے؛ جو صرف خدا کے وجود پر ایمان سے قائم ہو سکتا ہے۔

5. تاریخی تجربات
تمام انبیاء، صالحین، اور روحانی شخصیات؛ جنہوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا، وہ سب خدا کے وجود پر کامل ایمان رکھتے تھے۔ یہ سب جذباتی یا اندھے پیروکار نہ تھے، بلکہ اعلیٰ ترین عقل و حکمت کے پیکر تھے۔
حضرت ابراہیمؑ نے چاند، سورج، ستاروں کے سلسلے میں فکری تلاش کی۔
حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ، اور رسولِ اکرم ﷺ؛ سب نے انسانیت کو فکر، اخلاق، اور روحانیت کی اعلیٰ ترین مثالیں عطا کیں۔

لہٰذا، خدا پر ایمان رکھنا عقل سے انکار نہیں، بلکہ عقل کا عین تقاضا ہے۔ یہ جذباتیت نہیں، بلکہ عقل، فطرت، تجربے، تاریخ اور اخلاقیات؛ سب کی بلند ترین منزل ہے۔
قرآن بار بار کہتا ہے:
“أَفَلَا تَعْقِلُونَ؟” کہ “کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟”
“إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ” کہ “بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔”

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *