img
img

ناروےکی خاتون”رولا ڈون”کا سفرِ ایمان

اسلام کا سایہ،سکون قلب کا ذریعہ
(ناروےکی خاتون”رولا ڈون”کا سفرِ ایمان)

” تیرہ سال کے طویل مطالعہ جستجو اور غور و فکر کے بعد میں نے اسلام قبول کیا اس دوران مجھے مکمل یقین ہو گیا کہ مجھے تحفظ اور پناہ صرف اسلام کے سائبان میں حاصل ہے۔ میں فطرت اور حقیقت سے فرار نہیں چاہتی اس لیے فطرت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مسلمان ہو گئی”
یہ وہ کلمات ہیں جنہیں ناروے کی ایک خاتون “رولا ڈون” نے پچھلے دنوں اسلام قبول کرنے کے بعد ادا کیے ہیں۔
“رولا ڈون” کا تعلق عیسائیت سے ہے وہ کہتی ہے میں نے رسمًا اسلام قبول نہیں کیا بلکہ میں چاہتی ہوں کہ میری زندگی کے ہر پہلو سے اسلام واضح اور متر شح ہو ۔آج جب کہ بہت سے لوگ صورتاً مسلمان مانے جاتے ہیں مگر ان کا عمل اسلام کے منافی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اسلام کے تئیں میرا ظاہر و باطن یکساں ہو۔ اور خدا کا فضل ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اپنے دل میں اطمینان وسکون ۔ اللہ اور بندے کے درمیان ربط کو محسوس کیا ہےجبکہ میں اس کیفیت سے عیسائیت میں کبھی بھی آشنا نہیں ہوئی۔
“رولا ڈون” جس کا نیا اسلامی نام “امینہ “ہے مغرب اور مغربی تہذیب پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتی ہے” ان کے یہاں روحانیت کا تصور نہیں ہے ‌۔مادیت کا دور دورہ ہے اور اسی پر انسان اور اس کی قدروں کو تولا جاتا ہے”
“امینہ” سے جب سوال کیا گیا کہ مغربی تہذیب مرد و عورت کے درمیان کلی مساوات کے قائل ہے اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ بغیر تردد کے جواب میں کہتی ہے میں صرف اللہ اور اس کے رسول کے قانون کو مانتی ہوں. انسان کی بنائی ہوئی تہذیب کے قائل نہیں ہوں .میں قدرت کے اس فیصلے پر سر تسلیم خم کرتی ہوں جو اس نے ہماری تخلیق کے دن ہی صادر فرمایا تھا۔ میں اللہ کی مخلوق ہوں اور میری طبیعتوں اور تقاضوں سے اللہ خوب واقف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب میں اسلام اور مغربی قوانین کا تقابلی مطالعہ کرتی ہوں تو دونوں کے درمیان نما نمایاں فرق پاتی ہوں اسلام میں مردوں کو ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا حق حاصل ہے مگر اسی صورت میں جب وہ سب کے درمیان عدل و انصاف برت سکے۔ اسلام کی نظر میں ہر شخص مسئول اور ذمہ دار ہے۔ اور ذرا مغرب کی طرف ایک نظر ڈالیے مرد بالکل آزاد ۔ہر آنے والے دن میں ایک نئی لڑکی کے ساتھ، کوئی ذمہ داری نہیں، اس کے برخلاف گھریلو اور خانگی زندگی نہایت تکلیف دہ ہے۔ وہاں شوہروں کی آزادی کے بدلے بیویاں بھی فلموں، پارکوں اور تفریگاہوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ مغرب میں مرد و عورت دونوں حیران اور ناآسودہ ہیں۔
“امینہ “مزید وضاحت کے ساتھ اسلامی قانون کی جامعیت دہراتی ہے ،اسلام نے عورتوں کو شادیوں کے وقت بھی نظر انداز نہیں کیا ان کی رائے کا احترام کیا گیا ۔میں بھی اس نظریے کے قائل ہوں کہ نکاح کے وقت عورتوں کی طرف سے جائز شرائط منظور ہونی چاہیے ۔چنانچہ میں نے شادی کے وقت اپنی معلومات میں اضافے کے لیے تعلیمی سفر جاری رکھنے کی شرط رکھی۔ اسے میرے ہونے والے شوہر نے قبول کر لیا۔
“امینہ “کہتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ حصول تعلیم کے لیے تنہا نکل پڑوں اور بغیر اپنے شوہروں کی اجازت کے جہاں چاہوں چلے جاؤں۔ اس آزادی سے مجھے صرف تباہی ملے گی۔ مغرب میں آزادی اور مساوات کے نام پر عورتوں کو فریب میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ یہ کتنی شرمناک حقیقت ہے کہ مغربی خواتین بغیر اپنے شوہروں کے تنہا ہوٹلوں اور کلبوں میں نکل پڑتی ہیں اور اپنی مطمئن اور خوبصورت زندگی کا سودا کرتی ہیں ۔اسی لیے میں صاف طور پر کہتی ہوں کہ مغربی خواتین دوہری زندگی گزار رہی ہے البتہ مسلم خواتین کو جو حقیقی آزادی حاصل ہے دنیا کے کسی تہذیب میں کسی خاتون کو حاصل نہیں ہے۔
اسلام میں جنسی تعلقات صرف میاں بیوی کے درمیان ہی جائز رکھا گیا ہے اور یہی بنیاد ہے اسلامی معاشرے کی صالحیت کی۔ اس کے علاوہ اگر مرد ازدواجی زندگی کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا تو اس صورت میں اسلام نے عورتوں کو حق دیا ہے کہ وہ طلاق کا مطالبہ کرے۔ اسلام میں عورت گھر کے ملک کا ہے اسی کو جنت نشاں بنائے۔
پردے کے بارے میں آپ کے کیا رائے ہے ؟اس سوال کے جواب میں “امینہ” کہتی ہے میں پردے کا استعمال اس لیے کرتی ہوں کہ اللہ سے ڈرتی ہوں۔ کہیں اس کی خلاف ورزی نہ ہو جائے اس لیے پوری کوشش کرتی ہوں کہ اللہ کی رضامند بھی حاصل کروں۔ پردہ تو ہمارے نے اعزاز ہے۔ عقلا بھی یہ شناخت کے اعلی پہچان ہے۔ ہم خواتین کو اس سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کی بری نظروں سے ہماری حفاظت ہوتی ہے۔
یہاں ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مجھے آج تک مغربی خواتین کی سمجھ میں نہیں آئی کہ جب وہ اپنے گھروں سے نکلتی ہے تو بناؤ سنگار اور زیب و زینت کے ساتھ ،اس کے برعکس اسلام میں عورتوں کے لیے بناؤ سنگار اور زیب و زینت صرف اپنے شوہروں کے لیے ہے۔ اگر کسی ضرورت سے باہر نکلنا پڑے تو شرعی پردے کے ساتھ۔ میں نے جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ مغربی معاشرے کے فساد اور بہران کی بنیادی وجہ یہی بے پردگی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں عورتیں اپنے شوہروں کو لاعلم اور اندھیرے میں رکھتی ہیں۔ جس طرح وہ خود اپنے شوہروں کے سے لاعلم اور بے خبر رہتی ہی۔ں ایسی صورتحال میں ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ کیسے وجود میں آسکتا ہے۔
کیا آپ پردے میں کسی دکان یا بازار جاتی ہیں تو کسی چھیڑ چھاڑ کا شکار ہوتی ہے ؟اس تلخ سوال کے جواب میں “امینہ” کہتی ہیں نہیں اور نہ اس سلسلے میں؛ میں پریشان نہیں ہوں البتہ میرے ساتھ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نقاب میں بازار جا رہی تھی کہ پیچھے سے ایک شخص نے کہا تم اپنے شہر کو واپس لوٹو گی؟ اس کا خیال تھا کہ یہ مسلمان عورت اس شہر کی نہیں ہے کوئی اجنبیہ ہے۔ اس کو میں نے غصے کے عالم میں نہایت سختی سے جواب دیا۔ بہت جلد تم اسلام کی بالادستی کو تسلیم کرو گے البتہ اس قسم کے چھیڑ چھاڑ سے مسلم خواتین کو گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ بے باکی کے ساتھ اس کا دفاع کرنا چاہیے۔
اپنے اختتامی کلمات میں “امینہ” اسلام کے تئیں اپنے جذبات و خواہشات کا اظہار کرتی ہے کہ میں نے اسلام قبول کر کے اللہ کو معبود حقیقی اور ایک جانا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی و رسول. میں نے توحید و رسالت کا اقرار کر لیا تو ایسا محسوس ہوا کہ میں نے اپنے وجود میں دو خوبصورت زیور پہن لی ہوں. میں اللہ کےفضل کا اظہار کرتی ہوں کہ اس نے طویل جستجو کے بعد ایمان کی دولت سے مالا مال کیا۔ میں اپنی ماضی کی زندگی پر نظر ڈالتی ہوں تو پریشان ہو جاتی ہوں کہ کہیں اس کے بارے میں پوچھ نہ لی جائے لیکن اسلام کی جامعیت پر قربان کہ اس نے صاف طور پر کہا کہ جب کوئی اسلام کے حلقے میں داخل ہوتا ہے تو وہ گویا ایسا ہے جیسا کہ ماں نے ابھی اسے جنا ہو۔ اب ماضی کی زندگی کو سمیٹ کر میں نے اسلام کے سایہ میں مستقبل کی کامیابی کے لیے جدوجہد شروع کر دی ہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ میرے قلوب میں ایمان کی شمعیں روشن فرما دے ۔اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اپنا نیا اسلامی نام “امینہ” تجویز کیا اور اسی نام سے اپنا اسلامی سفر شروع کر دیا ہے ۔اللہ سے دعا ہے منزل مقصود تک ہماری رسائی ہو۔

(العالم الاسلامی مکۃ المکرمۃ)
(روشنی کی طرف صفحہ/59)

Comments are closed