img
img

سوال : اگر سائنس سب کچھ سمجھا سکتی ہے تو پھر خدا کی کیا ضرورت ہے؟

جواب :
یہ سوال سادہ الفاظ میں دہریوں کی موجودہ دنیا میں سب سے پرکشش دلیل بن چکا ہے: چونکہ سائنس نے اب تقریباً ہر مظہرِ فطرت (natural phenomenon) کو سمجھا دیا ہے؛ بارش کیسے ہوتی ہے، بجلی کیسے پیدا ہوتی ہے، کائنات کیسے پھیلی، سیلز کیسے بنتے ہیں، دماغ کیسے کام کرتا ہے — تو پھر کسی “ماورائی خدا” کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا خدا صرف ان خلاؤں کا نام ہے جہاں آج سائنس نہیں پہنچی؟ اور کل جب وہاں بھی سائنس پہنچ جائے گی تو خدا کی ضرورت مکمل ختم ہو جائے گی؟

اس اعتراض کو فلسفہ میں God of the Gaps یعنی “خلا کا خدا” کہا جاتا ہے۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا کو صرف وہاں فرض کیا جاتا ہے جہاں سائنسی علم نہیں پہنچا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتراض خود نہایت سطحی، غیر سائنسی، اور فکری طور پر ناقص ہے کیونکہ یہ خدا کو صرف “ظاہری مظاہر کی وضاحت” کا ذریعہ سمجھتا ہے، جبکہ حقیقت میں خدا کا تصور سائنس کے ”کیسے“ کے پیچھے موجود ”کیوں“ کو سمجھنے کا ذریعہ ہے۔

اسے تفصیل سے یوں سمجھیں:

1. سائنس “کیسے” بتاتی ہے، “کیوں” نہیں!
سائنس یہ بتاتی ہے کہ بادل بنتے ہیں، پھر بارش برستی ہے مگر یہ نہیں بتاتی کہ کیوں زمین پر زندگی کے لیے بارش کا یہ مخصوص نظام بنا؟
سائنس بتاتی ہے کہ خلیہ (Cell) کس طرح تقسیم ہوتا ہے، لیکن یہ نہیں بتاتی کہ زندگی کی غرض و غایت کیا ہے؟
سائنس بتاتی ہے کہ دماغ میں نیورونز کیسے حرکت کرتے ہیں، مگر یہ نہیں بتاتی کہ انسان خواب کیوں دیکھتا ہے؟ موت کے بعد کیا ہوگا؟ ضمیر کیوں ہے؟ خیر و شر کا مفہوم کہاں سے آیا؟

یہ تمام سوالات وجودی (existential) ہیں، اور سائنس کی دائرۂ کار سے باہر ہیں۔ ان کا جواب صرف وہی دے سکتا ہے جو کائنات کا مقصد بتانے والا خالق ہو؛ یعنی اللہ۔

2. سائنس خدا کی جگہ نہیں لے سکتی، کیونکہ وہ خود قوانین کی پابند ہے۔
خود سائنس اس بات کی قائل ہے کہ کائنات میں کچھ اصول، کچھ قوانین کام کر رہے ہیں؛ جیسے کششِ ثقل، نیوٹن کے قوانین، تھیوری آف ریلیٹیویٹی، کوانٹم میکینکس، وغیرہ۔
لیکن سوال یہ ہے:
ان قوانین کو “کس” نے بنایا؟
یہ قوانین اتنے ہم آہنگ اور غیر متبدل کیوں ہیں؟
کیا قوانین خود بخود پیدا ہو گئے، یا کوئی ہے جس نے ان کو طے کیا؟
یہ سوال صرف خدا کے وجود سے ہی جواب پا سکتا ہے۔

3. سائنس کا ہر نیا انکشاف خدا کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے
سائنس جتنی ترقی کرتی جا رہی ہے، اتنے ہی کائنات کے عجائبات سامنے آتے جا رہے ہیں — ڈی این اے کی پیچیدگی، شعور کی گہرائی، کائنات کی فائن ٹیوننگ، بگ بینگ سے پہلے کا سکوت، شعور کا غیرفزیکل وجود، سیاہ مادہ و توانائی (Dark Matter & Dark Energy)؛ یہ سب کچھ بتا رہا ہے کہ ہماری عقل کے سامنے ایک نہایت عظیم و بلند ہستی کا نظام کام کر رہا ہے، جو سائنس سے ماورا ہے۔

4. سائنس کی اپنی حدود ہیں
سائنس صرف مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہے؛ جو چیز نہ دیکھی جا سکتی ہو، نہ ناپی جا سکے، وہ سائنس کے لیے ناممکن ہو جاتی ہے۔
مثلاً:
– شعور (consciousness) کو کوئی مکمل طور پر نہیں سمجھا سکا
– ضمیر (conscience) یا محبت کو کوئی پیمائش کے قابل نہیں بنا سکا
– وجود، وقت، اور ابدیت کو مکمل سائنسی پیمانے پر نہیں ناپا جا سکتا

تو جب سائنس خود اتنی بنیادی چیزوں کو نہیں سمجھا سکتی، تو یہ دعویٰ کہ ”سائنس سب کچھ سمجھا سکتی ہے“، خود ایک غیر سائنسی ایمان ہے، کیونکہ یہ سائنسی بنیاد پر نہیں بلکہ فکری تکبر پر مبنی ہے۔

5. خدا نہ صرف کائنات کا خالق ہے، بلکہ انسان کی فطری ضرورت بھی ہے
انسان صرف مادّہ (matter) نہیں ہے، بلکہ وہ روح، قلب، عقل، اور جذبات کا مرکب ہے۔
کیا کوئی سائنسدان آج “غم” یا “محبت” کو ایک پائپ میں ڈال کر ناپ سکتا ہے؟
کیا سائنس کسی کو موت کے بعد کے انجام کے بارے میں تسلی دے سکتی ہے؟
کیا سائنس انسان کو ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کی وہ طاقت دے سکتی ہے جو ایمان دیتا ہے؟
جواب ہمیشہ “نہیں” ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ سائنس خدا کے وجود کی نفی نہیں کرتی، بلکہ اس کے نظم، علم، قدرت اور حکمت کی نشانیاں دکھاتی ہے۔
قرآن فرماتا ہے:
“وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ، وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ” (سورہ الذاریات: 20–21)
“زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین رکھنے والوں کے لیے، اور خود تمہارے نفسوں میں، کیا تم دیکھتے نہیں؟”

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *