img
img

سوال : اگر اللہ سب کچھ جانتا ہے تو ہمیں آزمانے کی کیا ضرورت ہے؟

جواب :
یہ سوال کئی دہریہ، شکوک رکھنے والے، یا فطری الجھنوں میں مبتلا افراد کی طرف سے سامنے آتا ہے:
جب اللہ تعالیٰ ہر چیز جانتا ہے، مستقبل بھی، نیتیں بھی، انجام بھی؛ تو پھر وہ انسانوں کو کیوں آزماتا ہے؟ کیوں انہیں دنیا میں بھیجتا ہے، امتحان میں ڈالتا ہے، اور پھر جنت یا جہنم کا فیصلہ کرتا ہے؟ کیا یہ سارا نظام غیر ضروری نہیں؟ کیا اللہ کی طرف سے امتحان لینا اس بات کی علامت نہیں کہ اسے معلوم نہیں کہ کون کیا کرے گا؟

یہ سوال سننے میں بہت گہرا لگتا ہے، مگر اس کا مفروضہ غلط ہے۔ یہ سوال علم اور عمل میں فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ آئیے اسے عقل، منطق، اور قرآن کی روشنی میں سمجھتے ہیں:

1) جاننا (علم) اور ظاہر کرنا (اظہار) دو الگ چیزیں ہیں
اللہ کو علم ہے کہ کون نیک ہے، کون بد، مگر اللہ کا علم اس شخص کے عمل کو ظاہر نہیں کرتا۔ امتحان اس لیے ہے تاکہ وہ علم عینی، ظاہری اور عدالتی دلیل بن جائے۔
مثلاً:
ایک استاد اپنے طالب علموں کو جانتا ہے کہ کون کامیاب ہوگا اور کون ناکام، مگر پھر بھی وہ امتحان لیتا ہے — تاکہ اس کا علم ظاہر اور ثابت ہو جائے، اور ہر طالب علم کو اس کے عمل کے مطابق نتیجہ دیا جا سکے — نا کہ مفروضے یا پیش گوئی پر۔

قرآن میں ہے:
“وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصّٰبِرِينَ” (سورہ محمد: 31)
“ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے تاکہ ہم جان لیں (ظاہر کر دیں) تم میں سے کون مجاہد ہے اور کون صبر کرنے والا۔”
یہاں “لنعلم” کا مطلب “جاننا” نہیں بلکہ اظہار کرنا ہے، کیونکہ اللہ پہلے سے جانتا ہے — مگر ظاہر کرنا عدل کے لیے ضروری ہے۔

2) اللہ کا علم انسان کے اختیار کو ختم نہیں کرتا
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ کا علم جبری نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہم کیا کریں گے، مگر وہ ہمیں مجبور نہیں کرتا۔
مثال کے طور پر: فرض کریں آپ ایک نفسیات کے ماہر ہیں اور جانتے ہیں کہ آپ کا شاگرد امتحان میں فیل ہوگا؛ آپ کا یہ علم اس طالب علم کو فیل کرنے پر مجبور نہیں کرتا، وہ خود اپنی کوتاہی سے ناکام ہوتا ہے۔
اسی طرح، اللہ کا علم انسان کے اختیار کو سلب نہیں کرتا، وہ صرف جانتا ہے کہ ہم اپنے اختیار سے کیا چنیں گے۔

3.) امتحان کا مقصد بندے کا اظہار، عدل، اور حجت قائم کرنا ہے
اگر انسان کو بغیر آزمائے جنت یا جہنم میں بھیج دیا جائے، تو وہ یہ اعتراض کر سکتا تھا:
“اے رب! تُو نے مجھے آزمایا ہی نہیں، تو مجھے سزا یا انعام کس بنیاد پر دیا؟”
لہٰذا اللہ نے اس دنیا کو دار الامتحان بنایا تاکہ:
– انسان خود اپنے عمل سے اپنے انجام کا مستحق بنے
– اللہ کا عدل مکمل طور پر ظاہر ہو
– کوئی فرد قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے موقع نہیں ملا

قرآن میں فرمایا:
“لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيِّ عَن بَيِّنَةٍ” (سورہ الأنفال: 42)
“تاکہ وہی ہلاک ہو جس کے پاس دلیل ہو، اور وہی زندہ رہے جو دلیل سے زندہ ہو۔”

4.) دنیا امتحان ہے، انجام کا نہیں
دنیا کی اصل حقیقت یہ نہیں کہ ہر مظلوم کو یہیں انصاف ملے، یا ہر نیک شخص کو انعام — بلکہ دنیا صرف ایک امتحانی گزرگاہ ہے۔ اصل جزا و سزا آخرت میں ہے، جہاں اللہ کا علم، بندے کا عمل، اور دل کی نیت؛ سب کا حساب ہوگا۔

5.) انسان کے اعمال اللہ کی عدل کا سبب ہیں، علم کا نہیں
اللہ کسی کو اس کے اعمال کے مطابق سزا یا انعام دیتا ہے؛ نہ کہ صرف اس کے علم کی بنیاد پر۔ اگر وہ صرف علم کی بنیاد پر فیصلہ کرے تو بندہ کہے گا:
“میں نے تو ابھی کچھ کیا ہی نہیں تھا!”
اس لیے امتحان لازم ہے، تاکہ اللہ کا عدل مکمل ہو، اور بندے کو حجت نہ رہے۔

خلاصہ:
اللہ کا علم کامل ہے، مگر اس علم کو ظاہر کرنا، انسان کو اختیار دینا، اور اعمال کی بنیاد پر فیصلہ کرنا؛ یہ اللہ کے عدل، حکمت، اور رحمت کا حصہ ہے۔
اگر امتحان نہ ہوتا، تو کوئی نہ جانتا کہ کون نیک ہے کون بد۔ اللہ کا عدل امتحان کے بغیر ظاہر نہ ہوتا، اور بندے کے پاس قیامت کے دن حجت رہ جاتی۔
اسی لیے قرآن کہتا ہے:
“تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ… الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا” (سورہ الملک: 1–2)
“بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے، جس نے موت و زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔”

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *