سوال : اگر خدا رحیم و کریم ہے تو وہ جہنم کیوں بنائے گا؟
جواب :
یہ سوال ایک ایسا جذباتی اعتراض ہے جو بہت سے انسانوں کے ذہن میں آتا ہے — چاہے وہ دہریے ہوں یا خدا کے وجود کو ماننے والے، لیکن اُس کی صفاتِ عدل و سزا کو سمجھنے میں الجھن رکھتے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا واقعی رحمان و رحیم ہے، محبت کرنے والا ہے، تو وہ کسی کو جہنم میں کیوں ڈالے گا؟ اگر وہ ہر چیز پر قادر ہے، تو سب کو معاف کیوں نہیں کر دیتا؟
لیکن یہ اعتراض بھی درحقیقت اللہ کی رحمت کو غلط سیاق و سباق میں سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ آئیے اسے تفصیل سے عقل، منطق، قرآن اور فطرت کی روشنی میں واضح کریں:
1. اللہ کی رحمت اور عدل ساتھ ساتھ ہیں، الگ الگ نہیں
اسلام میں اللہ کی سب سے زیادہ ذکر کی جانے والی صفات “رحمان” اور “رحیم” ہیں، لیکن اس کے ساتھ قرآن میں “عزیز” (زبردست)، “جبار” (غالب)، “منتقم” (بدلہ لینے والا)، “عدل” (انصاف کرنے والا) جیسے نام بھی ہیں۔
یعنی اللہ صرف “محبت کرنے والا” نہیں، بلکہ وہ انصاف کرنے والا اور عدل پر قائم خدا بھی ہے۔
ایک ایسا خدا جو ظالموں، قاتلوں، جابروں، فاسقوں، اور مجرموں کو بھی بغیر حساب جنت میں ڈال دے — وہ رحمان ہو سکتا ہے، مگر عادل نہیں۔
اور اگر عدل نہ ہو تو دنیا میں کیے گئے ظلم، ناانصافی، اور خیانت کا کوئی نتیجہ نہ ہو — پھر تو اس کائنات کا نظام ہی بے معنی ہو جائے۔
قرآن فرماتا ہے:
“وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ” (فصلت: 46)
“اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔”
2. جہنم صرف سزا کا مقام نہیں، بلکہ عدل اور نتیجے کا مقام ہے
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی، اختیار دیا، رسولوں کو بھیجا، کتابیں نازل کیں، نشانیوں سے خبردار کیا — حتیٰ کہ قیامت سے پہلے لاکھوں مواقع دیے — مگر اس کے باوجود جو انسان جان بوجھ کر کفر، شرک، ظلم، تکبر، اور گناہوں پر اصرار کرے، اللہ کی آیات کا مذاق اڑائے، نبیوں کو جھٹلائے، اور حق کو روند دے — کیا اس کو جنت دے دینا انصاف ہوگا؟
جہنم ایسے لوگوں کے لیے نہیں جو بھول چوک میں گناہ کر بیٹھے، یا کمزور پڑ گئے — بلکہ وہ اُن لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے حق کو جان کر مسترد کیا، اور اپنے ظلم و فساد سے دوسروں کی زندگی برباد کی۔
3. اگر جہنم نہ ہو، تو جنت بے معنی ہو جائے
جنت اُن لوگوں کے لیے ہے جو دنیا میں ایمان، صبر، قربانی، اخلاق، عدل، اور خلوص کے ساتھ جئے — اور جہنم اُن لوگوں کے لیے جو خود بھی بگڑے اور دوسروں کو بھی تباہ کرتے رہے۔
اگر ظالم اور مظلوم دونوں کو ایک جیسا انجام ملے، تو انصاف کا تصور مٹ جائے۔
فرض کریں ایک ظالم نے سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا، بچوں کو یتیم کیا، زمین پر فساد پھیلایا — اور مرنے کے بعد جنت میں جا کر حسین نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہو — تو کیا یہ عدل ہوگا؟ کیا اس سے اللہ کی رحمت ثابت ہوگی یا بے انصافی؟
قرآن کہتا ہے:
“أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ؟” (القلم: 35)
“کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی طرح کر دیں گے؟”
یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ نیک و بد برابر ہو جائیں۔
4. اللہ کی رحمت کا دائرہ بہت وسیع ہے — لیکن وہ رحمت سزا سے پہلے ہے، بعد میں نہیں
اللہ نے قرآن میں فرمایا:
“وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ” (الاعراف: 156) — “میری رحمت ہر چیز پر چھا گئی ہے”
لیکن اسی کے ساتھ فرمایا:
“فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ” — “میں اپنی رحمت ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کریں گے”
یعنی اللہ کی رحمت بے حد ہے، لیکن وہ اُس پر نازل ہوتی ہے جو اس کا مستحق بنے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ:
اللہ کی رحمت تو یہی ہے کہ وہ انسان کو پہلے گناہ کرنے دیتا ہے، پھر توبہ کا دروازہ کھلا رکھتا ہے، پھر ستر گناہ بھی معاف کر دیتا ہے — مگر جب انسان خود ضد کرے، انکار کرے، اور سرکشی کرے، تب اللہ اس کو اس کے اعمال کے مطابق سزا دیتا ہے — یہ عدل ہے، بے رحمی نہیں۔
5. جہنم انسان کی اپنی کمائی ہے، اللہ کی طرف سے زبردستی نہیں
اللہ تعالیٰ قرآن میں کئی مقامات پر فرماتا ہے:
“ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ”* (الحج: 10) — “یہ سب کچھ تیرے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے”
یعنی جہنم میں انسان کو جو کچھ ملے گا وہ اُس کے اپنے اعمال، فیصلوں، اور ضد کا نتیجہ ہوگا — اللہ کا ظلم نہیں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص بار بار خبردار کیے جانے کے باوجود آتش گیر مادہ ہاتھ میں لے کر آگ میں کود جائے — کیا اُس کی جھلسنے کی حالت پر قصور آگ کا ہوگا؟ نہیں — وہ اُس کی اپنی ضد اور بے احتیاطی تھی۔
خلاصہ:
– اللہ کی رحمت اُس کے عدل کے ساتھ ہے
– جہنم عدل کا مظہر ہے، ظلم کا نہیں
– جہنم ان کے لیے ہے جو جان بوجھ کر سرکشی کریں
– جنت اور جہنم کا فرق ہی دین کا محور ہے
– اللہ کی رحمت اُس کے انعامات میں ہے، مگر سزا اس کے انصاف میں ہے
قرآن میں فرمایا گیا:
*”نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ، وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ”* (الحجر: 49–50)
“میرے بندوں کو بتا دو کہ بے شک میں بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہوں، مگر میرا عذاب بھی نہایت دردناک ہے۔”
یہی توازن اسلام کے عقیدے کو نہایت کامل اور حقیقت پسند بناتا ہے — نہ وہ صرف خوف پر مبنی ہے، نہ صرف امید پر، بلکہ عدل، رحم، اختیار، اور انجام کے مکمل نظام پر قائم ہے۔