img
img

سوال : اللہ تعالی فرماتا ہے زیادہ قسمیں اٹھانے والا ذلیل ہوتا ہے اور اللہ تعالی قرآن مجید میں بار بار قسمیں کھاتا ہے قرآن میں یہ تضاد ہے لہذا قرآن یا تو اللہ کی کتاب نہیں یا نعوذ باللہ جو اللہ اس میں بول رہا ہے وہ خود جھوٹا ہے کہ پہلے زیادہ قسمیں کھانے والے کو ذلیل کہا پھر خود ہی زیادہ قسم کھانے لگا ۔

اعتراض :

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ (سورة القلم آيت 10)

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا (سورة الشمس آیت 1 تا 7 )

اس پر ایکس مسلم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے زیادہ قسمیں اٹھانے والا ذلیل ہوتا ہے اور اللہ تعالی قرآن مجید میں بار بار قسمیں کھاتا ہے قرآن میں یہ تضاد ہے لہذا قرآن یا تو اللہ کی کتاب نہیں یا نعوذ باللہ جو اللہ اس میں بول رہا ہے وہ خود جھوٹا ہے کہ پہلے زیادہ قسمیں کھانے والے کو ذلیل کہا پھر خود ہی زیادہ قسم کھانے لگا ۔
ایسے ہی تضاد بیانیوں کی وجہ سے ہم لوگ اسلام اور قران کو نہیں مانتے ۔

جواب :

جو آدمی قرآنِ کریم کے بارے میں تھوڑا سا بھی علم رکھتا ہوگا اس کو ایسے اعتراضات بے وزن معلوم ہوتے ہوں گے ایسے اعتراضات یا تو جہالت کی وجہ سے ہوتے ہیں اور یا تو دھوکا دینے کے لیے ہوتے ہیں جو دونوں آیتیں یہاں پیش کی گئی ہیں اس میں الگ الگ دو مضامین بیان کیے گئے ہیں اور دونوں اپنی جگہ صحیح ہیں اس میں کوئی تضاد یا خرابی نہیں ہے ۔ زیادہ قسمیں کھانے والا ذلیل ہوتا ہے یہ مضمون بھی برحق ہے ۔ اور اللہ تعالی نے بارہا قسمیں کھائی ہیں یہ مضمون بھی صحیح ہے ۔
ان دونوں مضامین میں تضاد اور ٹکراؤ ہے یہ ایکس مسلم کی جہالت یا جھوٹ ہے ہم نیچے دونوں آیات کی آسان تفسیر کا خلاصہ مستند کتابوں سے اس امید پر لکھ رہے ہیں کہ خواہ مخواہ قرآنی آیات میں تضاد تلاش کرنے والے اور اس تضاد کو دلیل بنا کر قرآن کی سچائی کا انکار کرنے والے بھی غور کریں گے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے ۔

سورۂ قلم کی آیت نمبر 10 ہے ، وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلاَّفٍ مَّهِيْنٍ جس کا لفظی ترجمہ ہے :
و ۔ اور ، لا ۔ نہیں ، تطع ۔ تم اطاعت کرو ۔ کل ۔ ہرایک ، حلاف ۔ زیادہ قسمیں اٹھانے والے کی ، مھین ۔ ذلیل
اصطلاحی ترجمہ : ” آپ زیادہ قسمیں اٹھانے والے ذلیل کی اتباع نہ کریں ”

پہلی بات یہ ہے کہ یہاں پر اعتراض کرنے والے نے حلاف مھین کا ترجمہ مبتدا اور خبر کا کیا ہے جو کہ اس کی ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے ترکیب میں حلاف مھین مرکب توصیفی ہے یعنی قسم اٹھانے والے شخصِ معین کو کہا گیا ہے نہ کہ مطلقا ہر قسم اٹھانے والے کو ذلیل کہا گیا ۔
کل حلاف مهين یہاں پر کل حلاف سے مراد ہر قسم اٹھانے والا نہیں بل کہ جھوٹی قسم اٹھانے والے ہر شخص کی صفت مهین ذکر کی گئی ہے .

چناں چہ تفسیرِ ابنِ کثیر میں ہے :
ثم قال تعالى : ( ولا تطع كل حلاف مهين ) وذلك أن الكاذب لضعفه ومهانته انما يتقي بأيمانه الكاذبة التي يجترء بها على اسماء الله تعالى ، واستعمالها في كل وقت في غير محلها .

قال ابن عباس : المهين الكاذب ، وقال مجاهد: هو الضعيف القلب . قال الحسن : كل حلاف : مكابر ، مهين : ضعيف .
ترجمہ :
پھر اللہ تعالی نے فرمایا ( وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلاَّفٍ مَّهِيْنٍ ) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جھوٹا اپنی کمزوری اور ذلت کی وجہ سے صرف اپنی جھوٹی قسموں سے بچتا ہے جن کے ساتھ وہ خدا تعالی کے ناموں کا ذکر کرنے کی جرأت کرتا ہے اور انہیں ہر وقت استعمال کرتا ہے جب وہ اپنی جگہ پر نہ ہوں ۔

ابن عباس نے کہا یہاں مهین سے مراد جھوٹ بولنے والا ہے ۔ اور مجاہد نے کہا وہ دل کا کمزور شخص ہے۔ حسن نے کہا کل حلاف سے مراد مغرور ہے مهین سے مراد کمزور ہے ۔

مذکورہ تشریح سے معلوم ہوا کہ بہت زیادہ جھوٹی قسمیں کھانے والا مذموم ہے اور اسی کی اطاعت کرنے سے روکا گیا ہے ۔
عموما اعتراض کرتے ہوئے سیاق و سباق کو کاٹ چھانٹ کر پیش کرتے ہیں ، مثال کے طور پر : قرآن مجید میں ہے نماز کے پاس مت جاؤ ، اور دوسری جگہ ہے نماز قائم کرو اب بہ ظاہر ان دونوں آیتوں میں تضاد ٹکراؤ ہے اسی طرح کا کام معترض نے کیا ہے ، جب کہ سیاق و سباق سے پوری بات صاف ہو جاتی ہے ، پہلی آیت مکمل یہ ہے : نماز کے پاس مت جاؤ نشے کی حالت میں ،
اسی طرح سورۂ قلم کی آیت کے ساتھ بھی کیا گیا ہے ۔
آئیے سورۂ قلم کی آیت نمبر 10 کے سیاق و سباق کا جائزہ لیتے ہیں ۔

سورۂ قلم کی شروعات ” ن والقلم ” سے ہوئی اور و بھی عربی میں قسم کے طور پر آتا ہے جب کہ آیت نمبر 10 میں قسم کے لیے لفظِ حلف استعمال ہوا ہے اور لفظِ حلف قرآن کریم میں 13 مقامات پر استعمال ہوا ہے بغیر کسی استثناء کے تمام جگہوں میں جھوٹی قسم کے لیے استعمال ہوا ہے یا قسم کھاکر توڑ دی گئی ہو اس کے لیے استعمال ہوا ہے اور اکثر جگہوں میں لفظِ حلف کی نسبت منافقین کی طرف ہے ، سورۂ قلم کی شروع کی 4 آیات میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی دل جوئی اور اخلاق کو بیان کیا ، پھر آیت نمبر 8 کو دیکھیے ” فلا تطع المكذبين ترجمہ : تو آپ جھٹلانے والوں کا کہا نہ ماننا اب آگے چل کر آیت نمبر 10 کو سیاق و سباق سے جوڑ کر دیکھیں تو بات واضح ہو جائے گی کہ جھٹلانے والے یعنی سچ اور حق پہ جھوٹ باندھنے والے اس قدر جھوٹ میں آگے جانے والے کہ اکثر جھوٹی قسموں سے بھی گریز نہ کرنے والے۔ اب بات صاف ہو جاتی ہے کہ آیت نمبر 10 میں انہی جھوٹوں کا ذکر ہے اسی سورۃ کو آخر تک پڑھ جائیں تو پتہ چل جائے گا کہ ان کے لیے مزید کیا کیا رذیل صفات بیان کی گئی ہیں ۔
ایک اور عربی تفسیر کی عبارت اس حوالے سے ملاحظہ فرمائیں :
قال السعدي في تفسيره : ولا تطع كل حلاف أي كثير الحلف فانه لا يكون كذلك الا وهو كذاب ولا يكون كذابا الا وهو مهين أي خسيس النفس ، ناقص الهمة ليس له همة في الخير بل ارادته في شهوات نفسه الخسيسة ۔

ترجمہ : سعدی نے اپنی تفسیر میں کہا( وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلاَّفٍ مَّهِيْنٍ ) یعنی زیادہ قسمیں اٹھانا، یقینا زیادہ قسمیں اٹھانے والا صرف بڑا جھوٹا ہی ہوگا، اور بڑا جھوٹا صرف ذلیل شخص ہی ہوگا یعنی ایک حقیر روح جس میں توانائی کی کمی ہوتی ہے بھلائی کی خواہش نہیں ہوتی بل کہ اپنی روح کی حقیر خواہشات کی خواہش ہوتی ہے ۔
آئیے اب سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے سورۂ والشمس میں آیت نمبر 1 تا 7 تک قسم کیوں کھائی ہے ۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالی نے مختلف چیزوں کی قسم کھائی ہے اس سلسلے میں حضراتِ مفسرین فرماتے ہیں کہ جن چیزوں کی اللہ تعالی نے قسم کھائی ان میں وہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالی کی قدرت پر دلالت کرنے میں بہت زیادہ واضح ہیں یا ان کا نفع خوب زیادہ ہے یا جن میں غور و فکر کرنے سے اللہ تعالی کی وحدانیت پر ذہن جلدی پہنچتا ہے ۔ حضرت تھانوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ” اللہ تعالی نے جو جا بہ جا مخلوقات کی قسم کھائی ہے کہ ان چیزوں کا عظیم ہونا بہ اعتبارِ کثیر النفع یا دال علی القدرۃ ہونے کے ظاہر کرنا مقصود ہے ۔

یہاں سورۂ والشمس کی پہلی آیت یت میں اللہ تعالی نے سورج اور اس کی روشنی کی قسم کھائی ہے اس لیے کہ سورج اور اس کی روشنی کی اہمیت کے کیا کہنے ؟ جس سے دنیا میں زندگی کے سارے کاروبار قائم ہیں ادھر سورج ڈوبا ادھر چاند نکلا اسی چاند سے موسموں کا اتار چڑھاؤ متعلق ہے؛ اس لیے آیت نمبر 2 میں اس کی قسم کھائی گئی، آیت نمبر 3 اور 4 میں دن اور رات کی قسم کھائی گئی کہ دن کی روشنی اور رات کی تاریکی دونوں ہی اللہ کی بڑی نعمت ہیں ۔ پھر آیت نمبر 5 اور 6 میں آسمان و زمین کی قسم کھائی گئی کیوں کہ انسان کے روزمرہ کے مفادات آسمان اور زمین ہی سے متعلق ہیں ۔ اور آیت نمبر 7 میں خود انسان کی زندگی کی قسم کھائی ہے ۔ لیکن دن ہو یا رات یا ان کے سائے میں جینے والا انسان سب اللہ ہی کے پیدا کیے ہوئے ہیں اس لیے اللہ تعالی نے قسم کھائی ہے کہ وہ پوری کائنات کا خالق اور پروردگار ہے جس بات کی قسم کھائی جا رہی ہے اس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا مقصود ہے ۔
اب انصاف پسند حضرات ان ساری تفصیلات کا صدق دلی سے بہ غور جائزہ لیں تو ان کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *