سوال : : جب قرآن کہتا ہے کہ اللہ صرف “کن” کہہ کر سب کچھ پیدا کر دیتا ہے، تو پھر یہ کہنا کہ جانور اللہ کے “ہاتھوں سے” پیدا کیے گئے، کیا اللہ کے بارے میں جسمانیت کا تصور نہیں دیتا؟ کیا یہ آیات آپس میں متضاد نہیں؟
اعتراض :
آیت1 : اولم يروا أنا خلقنا لهم مما عملت ايدينا أنعاما فهم لها مالكون .
ترجمہ: کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے اپنے ہاتھ سے ان کے لیے چوپائے پیدا کیے ۔
آیت 2 : إنما أمره إذا أراد شيئا ان يقول له كن فيكون .
ترجمہ: جب اللہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔
ان آیات کو پیش کرکے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایک طرف قرآن کہتا ہے کہ اللہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ کام ہوجاتا ہے ۔
دوسری طرف قرآن کہتاہے کہ
اللہ نے انسانوں کے لیے جانوروں کو اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ۔
یعنی کبھی قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے اشارہ کرنے کی دیر ہے ، کبھی اللہ خود ہی کام کرنے لگتا ہے ۔
لہذا یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ۔
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ اوپر آیات کا جو ترجمہ دیاگیا وہ معترض کا پیش کردہ تھا ، اب آیتِ کریمہ کا پورا ترجمہ دیکھیے ۔
پہلی آیت کا ترجمہ:
اور کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے چوپائے ان کے لیے پیدا کیے پھر یہ لوگ ان کے مالک بن رہے ہیں ۔
دوسری آیت کا ترجمہ:
اُس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کو چاہے تو اس سے کہے ہوجا ، وہ فورا ہو جاتی ہے ۔
ان آیات میں کہیں بھی تعارض نہیں ہے دونوں میں اللہ کے اختیار اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے اور خلقت انسانی کے مراحل کی طرف اشارہ ہے ، پہلی آیت میں اللہ اپنی وحدانیت کی دلیل دے رہے ہیں کہ کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ انسان کے لیے نہایت مفید اور کام کی چیز جانوروں کو ہم نے بغیر کسی کی مدد کے اپنے ارادے اور قدرت سے پیدا کیا ہے ۔
چناں چہ تفسیرِ کبیر میں ہے:
ثُمَّ إِنَّهُ تَعَالَى أَعَادَ الْوَحْدَانِيَّةَ وَدَلَائِلَ دَالَّةً عَلَيْهَا فَقَالَ تَعَالَى: أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينا أَنْعاماً أَيْ مِنْ جُمْلَةِ مَا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَيْ مَا عَمِلْنَاهُ مِنْ غَيْرِ مُعِينٍ وَلَا ظَهِيرٍ بَلْ عَمِلْنَاهُ بِقُدْرَتِنَا وَإِرَادَتِنَا .
(جلد 26 صفحہ 306)
قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر اسی طرح قدرت کا اظہار کیا گیا ہے ۔
جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات میں بإذني کا ذکر ملتا ہے ۔
یعنی جب عیسی علیہ السلام مٹی سے پرندے کی صورت بناتے تھے اللہ کے حکم سے ، اور پھر اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ پرندہ بن کر اڑجاتا تھا اللہ کے حکم سے اور مُردوں کو زندہ کرتے تھے اللہ کے حکم سے ۔
ہر جگہ اللہ تعالی کی قدرت اور طاقت کا ہی بیان ہے جس کا ذکر آیت 2 میں ہے ۔
قدرت کے اظہار کے لیے کبھی ید کبھی کن کبھی نفخت کبھی قدرت کبھی خلق جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔
جو انسانی مشاہدے سے تو بہت دور ہیں ، لیکن کچھ تخلیقی کیفیات آج Biological science studies یعنی سائنس حیاتیاتی مطالعہ کے ذریعے سے مشاہدے میں آرہی ہیں جو کہ اللہ کی قدرت کے مظاہر ہیں ۔
معترض بھائی نے ید کا ترجمہ ہاتھ سے کیا جب کہ عربی زبان بہت وسیع اور زیادہ معانی و مطالب والی زبان ہے ۔ چناں چہ اللہ تعالی لفظِ ید استعمال کرکے اپنی تخلیقی ذمہ داری کا اظہار فرمارہے ہیں جو کہ صرف ان کے قادرِ مطلق ہونے کی دلیل ہے ۔
ہاتھ کا لفظ اس لیے چناگیا تاکہ ہم معنی کا اندازہ لگاسکیں اس لیے کہ ہاتھ جسم کے اعضاء میں سب سے اہم عضو ہے جس سے کام کی ذمہ داری نبھائی جاتی ہے ۔
اس لیے نہیں کہ ہم اپنے ہاتھ کی تشبیہ اللہ کے ساتھ تصور کریں ۔ (مفردات القرآن صفحہ 891)
لہذا قرآن مجید میں کہیں بھی کوئی تضاد نہیں ہے ۔
اللہ ہمیں قرآن کی سمجھ عطافرمائے۔ آمین

