سوال : اگر زندگی اور موت صرف اللہ دیتا ہے، تو فرعون کے لوگوں کو بچوں کے قتل اور عورتوں کو زندہ رکھنے کا اختیار کیسے ملا — کیا یہ قرآن کا تضاد نہیں؟
اعتراض :
آیت 1 : الذي له ملك السماوات والارض لا اله الا هو يحيى و يميت
ترجمہ : وہی ہے جس کی بادشاہت ہے آسمان و زمین میں ۔ (سورۂ اعراف 158)
آیت 2 : وإذا نجيناكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب يذبحون أبناءكم ويستحيون نسائكم وفي ذلكم بلاء من ربكم عظيم .
ترجمہ : اور یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے نجات دلائی تم کو فرعون کے لوگوں سے جو تم پر برا عذاب کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی ۔
(سورۂ بقرہ 49)
ان دو ایات کے تعلق سے معترض کا خیال ہے کہ ان میں تضاد ہے کیوں کہ ایک آیت میں اللہ کہہ رہا ہے کہ وہی زندگی اور موت دیتا ہے دوسری آیت میں اس نے فرعونیوں کی طرف زندگی اور موت کی نسبت کردی ، جب کہ قرآن مجید کا دعوی ہے کہ اُس میں کسی بھی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے ہم نے تضاد پیش کردیا ۔
لہذا یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے ۔
جواب :
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ ہی زندگی دیتا ہے اور اللہ ہی موت دیتا ہے جیساکہ سورۂ بقرہ کی آیت 28 میں ہے :
كيف تكفرون بالله وكنتم أمواتا فأحياكم ثم يميتكم ثم يحييكم ثم إليه ترجعون .
ترجمہ :
تم کیسے انکار کرتے ہو اللہ تعالی کا جب کہ اللہ ہی نے تمہیں زندہ کیا پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا اور پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے ۔
اس آیت میں دو موت دو حیات کا ذکر ہے پہلی موت جب کہ انسان کا وجود نہیں تھا اسے وجود بخشا گیا یعنی زندگی دی گئی پھر اسے موت دی جائے گی یعنی اس دنیا کی زندگی کا ختم ہوجانا اور آخری زندگی کا آغاز یعنی بعث بعد الموت (موت کے بعد اٹھایا جانا) ۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب زندگی دینے والا وہی اللہ ہے تو فرعون کی طرف زندگی اور موت کی نسبت کیوں کی ؟
دو زندگی اور دو موت کو جاننے کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کبھی کبھی اسبابِ موت کو بھی موت خیال کیا جاتا ہے ۔ حالاں کہ آلِ فرعون بھی جانتے تھے کہ ہم زندگی نہیں دے سکتے یعنی انسان کو عدم سے وجود نہیں بخش سکتے ۔
آیتِ کریمہ میں جو موت کی بات کہی گئی ہے وہ وجود میں آنے کے بعد کی موت ہے اس اعتبار سے فرعون کسی کو قتل کردیتا ہے یا کسی کو چھوڑ دیتا ہے تو جس کو قتل کیا چوں کہ اس کی قتل کا سبب بنا اس لیے اس کی طرف موت کی نسبت کردی گئی ۔ جیسا کہ آج کل اگر کوئی کسی کو قتل کردیتا ہے تو کہاجاتاہے کہ اس نے قتل کردیا یا عزرائیل علیہ السلام کی طرف موت کی نسبت کردی جاتی ہے کہ انہوں نے جان لے لی کیوں کہ اللہ نےانہیں یہ ذمہ داری دی ہے۔
اسی طرح عام فہم زبان میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ
میرا گلا بیٹھ گیا ، میرا کاروبار بیٹھ گیا ، میرا بھائی بیٹھ گیا ، کیا کوئی سمجھ دار آدمی ان سب سے ایک ہی مراد لے گا؟
بالکل نہیں!
اگر ایک ہی مراد لے گا تو اسے پاگل کہا جائے گا ۔ بالکل اسی طرح ان دونوں آیات میں بھی کوئی تعارض نہیں ہے ۔ اللہ ہمیں ہدایت دے آمین

