img
img

سوال : علمِ حدیث کی اصطلاح میں موضوع روایات سے کیا مراد ہے ؟ کیا ضعیف اور موضوع روایات کے ایک ہی معنٰی ہیں ؟ نیز کیا ضعیف اور موضوع روایات کو فقہاء کے ہاں حجتِ شرعیہ تسلیم کیا جاتاہے ؟ بعض لوگ کتاب فضائل اعمال پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کتاب میں بعض ضعیف اور موضوع روایات موجود ہیں۔ اس کی بھی وضاحت فرمائیے ؟

جواب :

حدیث موضوع اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی کوئی اصل نہ ہو بلکہ وہ گھڑی ہوئی ہو اس حدیث پر کسی بھی حال میں عمل درست نہیں خواہ عمل کا تعلق فضائل اعمال سے ہو، الحدیث الموضوع لا أصل لہ فلا یجوز العمل بہ بحالٍ أي ولو في فضائل الأعمال (قواعد في علوم الحدیث: ۹۴) اور حدیث ضعیف اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے اندر صحیح یا حسن کے شرائط مجتمع ہوں یعنی تعدد طرق سے بھی اس کا ضعف دور نہ ہوسکے مثلاً فسق راوی وغیرہ تو ایسی حدیث بالاتفاق احکام وعقائد کے باب میں معتبر نہیں، البتہ ترغیب وترہیب فضائل اعمال اور قصص ومواعظ کے اندر تین شرطوں کے ساتھ معتبر ہے اوراس پر عمل جائز ہے۔
(۱) ضعف شدید نہ ہو یعنی اس کا راوی کذاب یا متہم بالکذب نہ ہو۔
(۲) وہ حدیث کسی شرعی اصل کے خلاف نہ ہو۔
(۳) بوقت عمل اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ ہو بلکہ احتیاط کا اعتقاد ہو اور علامہ زرکشی فرماتے ہیں حدیث ضعیف پر احکام کے باب میں بھی عمل کیا جائے گا، اگر اس میں احتیاط ہو کذا في تدریب الراوي للسیوطي مفصلاً: ۱/۱۶۲ ط: دارالکتب العلمیہ۔ وعبارتہ ویجوز عند أہل الحدیث وغیرہم التساہل في الأسانید وروایہ ما سوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ في غیر صفات اللہ تعالی والأحکام کالحلال والحرام ومما لا یتعلق لہ بالعقائد والأحکام۔ قال شیخ الإسلام، أي ابن حجر) للعمل بالحدیث الضعیف ثلاثة شروط أحدہا أن یکون الضعف غیر شدید۔ الثاني أن یندرج تحت أصل معمول بہ۔ الثالث أن لا یعتقد عند العمل بہ ثبوتہ بل یعتقد الاحتیاط وعند الزرکشی: یعمل بالضعیف أیضًا في الأحکام إذا کان فیہ احتیاط کذا في التدریب ملخصًا، مذکورہ بالا تفصیل کو اگر بنظر غائر پڑھایا جائے تو آپ کے سارے اشکالات خود بخود رفع ہوجائیں گے، مثلاً ضعیف اور موضوع کا فرق، کتاب فضائل اعمال پر اعتراض کی حقیقت اور حدیث حجت کب ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

[Click For Reference]

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *