img
img

سوال :اسلام میں سوالات اور تنقید کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟

جواب :
اسلام میں سوالات کی گنجائش ہے لیکن وہ بھی اچھا صحیح سوال ہو کہ جو کچھ جواب حاصل کرنے کے لیے پوچھا جائے جیسے کہ کہا جاتا ہے حسن السوال نصف العلم (اچھا سوال آدھا علم ہے) لیکن بیکار کے سوال نہ ہو جیسے کہ دنیا کی دوسری چیزوں میں بھی بیکار سوال کرنے سے منع ہے خصوصا ًآئین و قوانین کے بارے میں ۔
رہی بات اسلام میں خامیاں تلاش کرنے کی تو وہ تو ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملے گی بہت سے لوگ آئے اورسوالات کیے اور ان کو اسلام نے ایسے جواب دیے کہ منہ بند کرنے پر مجبور ہو گئے اور ہر انسان کو صحیح غلط کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے جیسے کہ کوئی سوال کرنے والا یا اعتراض کرنے والا یوں کہے کہ میں اسلام میں صحیح غلط کا فیصلہ کرنے کے لیے پوچھ رہا ہوں تو یہ حق اس کو نہیں ہے جس طرح کورٹ کے اصول کے بارے میں اعتراض غلط ہے، ایرے غیرے نتھو خیرے کا کام نہیں ہے کہ ایسی چیزوں پر تنقید کریں جس کا علم نہ ہو اسی طرح اسلام کے اصولوں کے بارے میں بھی تنقید کا حق بڑے ماہر لوگوں کو ہوتا ہے اور زیادہ سوالات انسان کے لیے صحیح غلط کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں کیونکہ سوالات تو ختم نہیں ہوتے اس لئے اچھے سوالوں کی اجازت ہے ،بیکار سوال کی نہیں اور انسان کو حق اور باطل صحیح اور غلط میں سے کسی کو اختیار کرنے کا حق ہے صحیح اور غلط کے فیصلے کا نہیں کیونکہ صحیح غلط کا فیصلہ پہلے ہی سے ہوتا ہے اب جانکاری کے لیے سوال کرنا تاکہ صحیح چیز کو اختیار کر لیا جائے جائز ہے حق ہے لیکن سوال اس لیے کرنا تاکہ خود کسی چیز کے صحیح غلط ہونے کا فیصلہ کرے تو یہ درست نہیں ،کیونکہ انسان خدا نہیں ہے۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *