img
img

سوال : دین میں تنگی و دشواری ہے؟

جواب :
تنگی کے دو درجے ہیں:
(1) قانون کی پابندی کرنا پڑتا ہے اور یہ دشوار ہے
(2) خود قانون سخت ہے
تو اسلام میں کون سی دشواری (difficulty)ہے اگر قانون کی پابندی کرنی پڑتی ہے تو یہ تسلیم ہے کیونکہ اس میں دشواری ہوتی ہی ہے۔ خواہ وہ قانوں دنیاوی ہو یا اخروی ہو کتنا ہی آسان ہو۔
مثال کے طور پر جو لوگ میڈیکل میں اعانت( supporting staff)کے طور پر کام کرتے ہیں ان میں سے بعض کی دن بھر، بعض کی رات بھر ڈیوٹی رہتی ہے اور بسا اوقات ان کو ضرور دشواری ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ نوکری(job) کو لعن طعن کرنے لگتے ہیں پھر بھی اس نوکری کو چھوڑتے نہیں۔
لہذا جب قانون کی پابندی ہوگی تو دشواری ہوگی تو اگر اسلام میں اس بنا پر تو شواری ہے تو قابل قبول ہے بلکہ اس کو تو خود قرآن نےثابت کیا (لا تتبع الهواء) خواہشات کی پیروی نہ کرو اور اس سے صاف انها لكبيرۃ الا على الخاشعين بلاشبہ یہ بڑی بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو خشوع خضو کرنے والے ہیں اور یہ دشواری صرف اسلام میں خاص نہیں بلکہ ہر کام میں ہے۔کھانے میں بھی ہے۔ ان اپاہجوں کو کوئی پوچھے جو کھانے میں کتنی دشواری اٹھاتے ہیں ؟
دوسرا درجہ خود قانون بڑا سخت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کو سب مان لیں تب بھی دشواری پیش آئے تب تو یہ قانون واقعی دشوار ہے مثلاً یہ قانون بنا دیا جائے دن بھر میں جو 20 گرام چاول سے زیادہ کھانا کھائے گا تو اسکے لۓ پھانسی کی سزا ہے اب یہ ایسی سخت بات ہے کہ اگر سب عمل کرنے کا ارادہ کر بھی لیں تب بھی تکلیف ہوگی ۔لہذا اسلام میں اس قسم کی دشواری نہیں
ایک دشواری وہ ہوتی ہے جو قانون پر اگر سب عمل کرنا چاہیں تو عمل کر سکیں لیکن اکثر لوگ عمل نہیں کرتے اب اس کو سخت نہیں کہا جائے گا بلکہ باغیوں کی بغاوت کہا جائے گا لہذا اسلام میں کوئی قانون ایسا نہیں جو انسان کے طاقت سے باہر ہو اس لیے کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے لا يكلف الله نفسا الا وسعها انسان کو اس کی طاقت کے بقدر کا ہی مکلف بنایا گیا ہے۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *