سوال : اسلام سے پہلے اقوام عالم میں بھی کثرت ازواج کا رواج تھا؟
جواب:
ایک مرد کے لیے متعدد بیویاں رکھنا اسلام سے پہلے تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں جائز سمجھا جاتا تھا یورپ ، ہندوستان، ایران، مصر ،بابل وغیرہ ممالک کی ہر قوم میں کثرت ازواج(Polygamy) کی رسم جاری تھا اور اس کی فطری ضرورتوں ( natural necessity)سے آج بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔
یورپ نے تعدد ازواج (Polygamy) کو ناجائز کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں زنا عام ہونے لگا اور بہت سی عورتیں بے نکاح رہ گئیں اور اب وہاں کے عقلمند حکماء اس کو یعنی تعدد ازواج کو رواج دینے کے حق میں ہیں۔
مسٹر ڈیول پورٹ ایک مشہور عیسائی فاضل ہیں وہ انجیل کی بہت سی آیات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ان آیتوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ تعدد ازواج صرف پسندیدہ نہیں بلکہ اس میں خدا کی جانب سے ایک خاص قسم کی برکت ہے اسی طرح پادری نکسن اور ملٹن وغیرہ نے اپنے الفاظ کے ذریعہ مسٹر ڈیول پورٹ کی تائید کی ہے ۔
کرشن جو ہندوؤں میں واجب التعظیم اوتار مانے جاتے ہیں ان کی سیکڑوں بیویاں تھیں جو مذہب قانوں عفت و عصمت قائم رکھنا چاہتا ہے اور زنا کے راستے کو بند کرنا چاہتا ہے وہ تعدد ازواج کی کو اجازت دیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ غرض اسلام سے پہلے کثرت ازواج کی رسم بغیر حدبندی کے جاری تھی اور ابتدائے اسلام میں بھی یہی معاملہ تھا لیکن اس میں خرابی یہ ہوتی لوگ حرص کر کے تو نکاح کر لیتے لیکن ان کے حقوق ادا کر نہیں پاتے یہ عورتیں اب قیدیوں کی طرح زندگی گزارتی تھیں۔ اب عدل و مساوات بالکل ہی نہیں تھا۔
اسلام نے اس برائی کو ختم کر کے ایک متعینہ تعداد مقرر کیا تاکہ عورتوں کے درمیان عدل و مساوات کا معاملہ قائم ہو اور ان کے حقوق ضائع نہ ہوں اور جس مرد کے اندر عورتوں کے درمیان عدل و مساوات کرنے کی طاقت نہ ہو اس کے لیے ایک سے زیادہ نکاح کو باعث جرم قرار دیا گیا۔