img
img

سوال : مستشرقین کا دعویٰ ہے کہ رسول اکرم ﷺ اور عربوں کا حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام سے کوئی نسبی تعلق نہیں، جیسا کہ ولیم میور نے لائف آف محمد میں لکھا کہ آپ ﷺ کا نسب گھڑی ہوئی کڑیوں سے اسماعیل علیہ السلام سے جوڑا گیا ہے۔

سوال  :

مستشرقین نے بڑے زور وشور سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور عربوں کا حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام سے کوئی نسبی تعلق نہیں ہے۔؟
چنانچہ مشہور مستشرق ولیم میور لائف آف محمد میں لکھتا ہے :
While Mahomet’s paternal line was nevertheless traced up by fabricated steps Lifeof), eighteen centuries farther to Ishmael
(cvii/1, Mahomet]
ترجمہ :جب کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نسب بہ ہر صورت تراشیدہ کڑیوں کے سہارے اٹھارہ صدی بیش تر اسماعیل سے ملا لیا گیا ہے۔

جواب :

تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ اسماعیل علیہ السلام نے مکہ میں زندگی گزاری اور قبیلہ جرہم میں آپ کا نکاح ہوا اور آپ ابوالعرب کہلائے ۔ یہ بات قرآن مقدس اور تورات سے ثابت ہے اور بعض انصاف پسند مغربی مؤرخین نے بھی اپنی تحریروں میں اس کا اعتراف کر رکھا ہے۔
چنانچہ کم سنی میں ہی اسماعیل کو ان کی والدہ ہاجرہ کے ہم راہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اس مقام پر چھوڑا تو انھوں نے اپنے رب سے ان الفاظ میں دعا کی :
رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفْهَدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِى
إِلَيْهِمْ وَارْزُقُهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ]
“اے ہمارے رب ! میں اپنی اولاد کو آپ کے معظم گھر کے قریب ایک میدان میں جو زراعت کے قابل نہیں، آباد کرتا ہوں ، اے ہمارے رب تا کہ وہ لوگ نماز کا اہتمام رکھیں، تو آپ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کر دیجیے اور ان کو پھل کھانے کو دیجیے؛ تا کہ یہ لوگ شکر کریں۔“
اس سے صاف واضح ہے کہ ابتدا ہی سے اسماعیل ارض حرم مکہ مکرمہ میں آبادر ہے۔ تورات کے سفر التثنیہ میں مذکور ہے : ” رب سیناء سے آیا اور سعیر کو لوگوں کے سامنے روشن کر دیا اور فاران کے پہاڑ سے چمکا اور القدس کے ٹیلوں سے نمودار ہوا اور اس کی دائیں جانب لوگوں کے لیے شریعت کی روشنی ہے۔ [التثنیہ 2/33]
جرجیس صال کے مطابق اس کی وضاحت یہ ہے کہ سیناء سے رب کا آنا کنا یہ ہے تورات کے عطا کرنے سے، اور سعیر سے روشن ہونا کنایہ ہے عیسیٰ کو انجیل دینے سے اور فاران سے چمکنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارے جانے سے کنایہ ہے؛ اس لیے کہ فاران مکہ کا ایک پہاڑ ہے۔[السیرۃ النبویہ و اوہام المستشرقین ،ص63]
امریکی دانشور جارج بش ( ان کی کتاب ۱۸۳۱ء میں چھپی، یہ بعد میں امریکہ کے صدر بننے والے جارج بش سینئر اور جارج ڈبلیو بش کے دور کے رشتے دار تھے ) کہتا ہے: اسماعیل سے عربوں کے نسب کی ایک دلیل یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی یہودیوں اور عربوں میں ختنے کا رواج ہے۔ یہودی ختنے میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں اور عرب اسماعیل علیہ السلام کی ؛ اس لیے کہ اسماعیل ہی عرب قوم کے بانی ہیں۔
ان کے علاوہ بھی تاریخی کتابوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے بیانات ہیں جن سے صاف واضح ہے کہ عربوں کا اسماعیل علیہ السلام کے نسل سے ہونا محض افسانہ نہیں ہے؛ بلکہ حقیقت واقعہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ عربوں کے درمیان باقاعدہ نسب کے ماہرین موجود تھے؛ بلکہ عام طور سے عربی شخص کو اپنے خاندان کی ایک ایک کڑی یاد ہوتی تھی، اللہ پاک نے انھیں حافظے کی بھی زبر دست قوت عطا کی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ عربوں میں خاندانی بنیاد پر فخر و مباہات عام بات تھی۔ اس صورت حال میں عربوں کو اپنے نسب سے ناواقف قرار دینا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *