img
img

سوال : محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عام آدمیوں کے لیے 4 عورتوں کی اجازت دی اور خود اس سے زیادہ نکاح کیا ایسا کیوں؟

جواب:

اس شبہ کا ردضروری سمجھتے ہیں جسے کینہ پرور معاندین کا اسلام،صلیبوں اور مغرب کے متعصب مستشرقین نے خوب اُچھالا۔پھر عقائد اسلامیہ کو خراب کرنے ،حقائق کو چھپانے اور ر سالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو کم کرنے کے لیے اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹا۔چنانچہ وہ کہتے ہیں:
“محمد صلی اللہ علیہ وسلم (معاذاللہ) ایک شہوت پرست انسان تھا۔جو خواہش نفس کا غلام اور لطف اندوزی کا مریض ہو،جس نے اپنے پیروکاروں کو تو چار سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت نہ دی لیکن خود چار پر اکتفا نہ کرسکا بلکہ شہوت اور خواہش نفس سے مغلوب ہوکر دس یا اس سے بھی زیادہ عورتوں سے نکاح کیا(معاذاللہ)”

دراصل یہ لوگ بغض وعناد کی وجہ سے جھوٹ بول رہے ہیں ۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر گز شہوت پرست انسان نہ تھے بلکہ آپ تو انسانیت کے غم خوار پیغمبر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام انسانوں کی طرح شادیاں کیں تاکہ وہ راہ راست سے بھٹکی انسانیت کے لیے گھریلو زندگی کابھی عملی نمونہ پیش کرسکیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی پہلے پیغمبر تو نہیں تھے کہ انہوں نے متعدد شادیاں کرکے سابقہ انبیاء کی سنت کی مخالفت کی یا ان کے منہج میں کمی بیشی کی،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی رسول آئے جنھوں نے متعدد شادیاں کیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
﴿وَلَقَد أَرسَلنا رُسُلًا مِن قَبلِكَ وَجَعَلنا لَهُم أَزوٰجًا وَذُرِّيَّةً … ٣٨﴾…الرعد
“اورحقیقت یہ ہے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بے شمار پیغمبر قوموں میں بھیجے،ہم نے انہیں بیویاں بھی دی تھیں اور اولاد بھی”
معلوم ہوا کہ سابقہ انبیاء علیہ السلام کے ہاں تعدد ازواج کا رواج تھا۔لیکن یہ لوگ ان انبیاء علیہ السلام کی شان میں کبھی گستاخی نہیں کرتے تو پھر آخر یہ لوگ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ طوفان کیوں کھڑا کررہے ہیں اور کیوں شدید تعصب اور جانبداری کاشکار ہیں۔در اصل بات یہ ہے،جیسا کہ کسی شاعر نے کہا:
قد تنكر العين ضوء الشمس من رمد
وينكر الفم طعم الماء من سقم البوصيري.
“آشوب چشم انسان سورج کی شعاعوں کو برداشت نہیں کرسکتا،اور مریض آدمی کو میٹھا پانی بھی ترش معلوم ہوتاہے”
اس اعتبار سے اللہ نے سچ فرمایا ہے:
﴿فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصـٰرُ وَلـٰكِن تَعمَى القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ ﴿٤٦﴾…الحج
“حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اندھے پن میں پڑتا ہے توآ نکھیں اندھی نہیں ہوجاتا کرتیں بلکہ سینوں میں بسنے والے دل بھی اندھے ہوجاتے ہیں”
یہاں دو باتوں کو یاد رکھنا ضروری ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے شبہات کے تمام بادل صاف کردیتی ہیں اور ہبرائ کرنے والے ان تمام معاندین کامنہ بند کردیتی ہیں ،ضروری ہے کہ ہم ان دو باتوں سے کبھی غافل نہ ہوں اور جب بھی امہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعددد ازواج کی حکمت کے بارے میں گفتگو کریں تو ہمیشہ ان دو بنیادی باتوں کو اپنے سامنے رکھیں:
یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح اس وقت کیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر50 سال سے بھی تجاوز کرچکی تھی۔ان دو نکات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کے تعصب وعناد کے شکار مستشرقین کی یہ تہمت کس قدر بے ہودہ اور کس قدر باطل ہے۔اگر شادی سے نعو ذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد ہوس پرستی،خواہش نفس کی تکمیل اور محض عورتوں سے تمتع ہوتا تو کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت پیری میں متعدد شادیاں نہ کرتے بلکہ جوانی کے عالم میں کرتے اور کبھی بیوہ اور معمر خواتین سے نکاح نہ کرتے بلکہ نوجوان کنواری لڑکیوں سے نکاح کرتے۔
چنانچہ جب جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں آئے کہ ان کا چہرہ شاداں وفرحاں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا تو نے شادی کی ہے؟کہا:جی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کنواری سے یا بیوہ سے؟کہا:بیوہ سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو نے کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی تاکہ تو اس کے ساتھ کھیلتا اور وہ تیرے ساتھ کھیلتی،تو اس کے ساتھ دل بہلاتا اور وہ تیرے ساتھ دل بہلاتی۔
دیکھئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کنواری لڑکی (virgin girl)سے شادی کرنے کا مشورہ دیا،کیونکہ آپ قضائے شہوت کے طریقوں سے خوب واقف تھے،لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنواریوں کو چھوڑ کر بیواؤں سے نکاح کیا اور پچاس سال کی عمر تک ایک بوڑھی خاتون خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ جوانی گزاری۔اگر متعدد شادیاں کیں تو اس وقت جب جوانی ڈھل کر بڑھاپے کے عالم میں پہونچ چکے تھے۔آپ خود ہی فیصلہ کریں ،کیا یہ نفس پرستی اور خواہشات نفس کی تکمیل تھی؟؟
تاریخ گواہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین آ پ کے اشارے پر اپنی راحتوں اور جانوں کو قربان کرنے والے تھے ۔اگر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی خوبصورت،جوان اور کنواری لڑکی سے شادی کی آرزو کرتے تو یقیناً ان میں سے کوئی بھی ذرا تأمل نہ کرتا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کی تکمیل میں فخرمحسوس کرتا تو پھر آخر کیا وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عین جوانی میں شادی نہ کی اور کیوں کنواریوں کو چھوڑ کر بیواؤں کو ترجیح دی۔۔۔یہاں مشرکین مکہ کی نبی اکرم کو ابو طالب کی زبانی وہ پیشکش بھی سامنے رہنی چاہیے کہ جس میں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب کی سب سے خوبصورت لڑکی سے شادی کی پیشکش کی تھی اور اس کے بدلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ا پنی دعوت حقہ چھوڑدینے کا تقاضا کیا تھا۔لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے قوی عزم کے ساتھ ان تینوں پیشکشوں کو ٹھکرادیا تھا۔بالفرض معتریضین کا دعویٰ درست ہوتو آپ کے اس طرز عمل کی وہ کیا توجیہ کریں گے؟؟
بلاشبہ اس نکتے پر غور کرنے سے جھوٹ اور ہرزہ گوئیوں کے تمام بادل چھٹ جاتے ہیں اور تمام شکوک وشبہات رفع ہوجاتے ہیں اور اس میں معاندین کےاعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو کم کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کو داغدار کرنے کے درپے ہیں۔
اس نکتہ پر غور کرنے سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیاں نفس پرستی اور قضائے شہوت کے پیش نظر نہ تھیں بلکہ تمام کی تمام شادیاں دین اسلام کی ترقی،اور اپنے دوستوں کے ساتھ تعلق کے مضبوط کرنے کی غرض سے اور دیگر دینی،معاشرتی وسیاسی مصلحتوں کے تحت کی گئیں تھیں۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *