سوال : قرآن کریم میں کئی مقامات بیان کیا گیا ہے کہ زمین و آسماں چھ دنوں میں پیدا کیے گئے لیکن سورۂ فصلت (حم السجدہ) میں کہا گیا کہ زمین و آسماں اٹھ دنوں میں بنائے گئے کیا یہ تضاد نہیں؟ اس آیت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ زمین 6 دنوں میں اور پھر اس کے بعد آسمان دو دنوں میں پیدا کیے گئے کیا یہ بات اس نظریے کے منافی نہیں جس کے مطابق زمین و اسمان بیک وقت پیدا ہوئے ؟
جواب:
یہ بات صحیح ہے کہ قرآن کے مطابق آسمان اور زمین چھ دنوں میں پیدا کیے گئے رہی 8 دن کے سلسلے میں جو آیت کریمہ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سورۂ فصلت (حم السجدہ )کی آیت 9تا 12 میں مذکور ہے۔ قل ءانكم لتكفرون بالذي خلق الارض في يومين وتجعلون له اندادا .ذلك رب العلمين .وجعل فيها رواسي من فوقها وبارك فيها وقدر فيها اقواتها في اربعة ايام .سواء للسائلين. ثم استوى الى السماء وهي دخان فقال لها وللارض ائتيا طوعا اوكرها. قالتا اتينا طائعين .فقضاهن سبع سماوات في يومين واوحى في كل سماء امرها. وزينا السماء الدنيا بمصابيح وحفظا ذلك تقدير العزيز العليم اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اے نبی آپ ان سے کہیے کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہو اور اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا اور وہ سارے جہانوں کا پالنہار ہے اس نے زمین پر پہاڑ جمادیے اور اس میں برکتیں رکھ دی اور اس میں غذاؤں کا ٹھیک اندازہ رکھا یہ کام چار دنوں میں ہوا پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا! جو اس وقت محض دھواں تھا اس نے زمین اور آسمان سے کہا وجود میں آجاؤ تم چاہو یا نہ چاہو دونوں نے کہا ہم آگئے فرمانبردار ہو کر۔ تب اس نے دو دنوں کے اندر سات آسمان بنا دیا۔ اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین و آسماں 8 دنوں میں پیدا کیے گئے ہیں جو دوسری آیت کے مخالف ہیں لیکن یہ سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے کہ جہاں پر اسمان کی تخلیق کا تذکرہ ہے وہاں ثم کا لفظ ہے عربی میں اس کا معنی (پھر یا مزید برآں) ہے اگر ترجمہ پھر کیا جائے تو 8 دن حساب ہوں گے اور اگر مزید برآں(moeover) یا اس کے ساتھ ساتھ کا ترجمہ کیا جائے تو سمجھ میں ائے گا زمین کی تخلیق کے ساتھ ساتھ آسمان کی بھی تخلیق ہوئی اور تمام کام کو انجام دینے میں اٹھ دن نہیں چھ دن لگے اور یہی صحیح ترجمہ ہے۔