سوال : کیا سورہ نجم کی تلاوت کے دوران “تِلْكَ الغَرانِيقُ العُلَىٰ…” والے الفاظ کا نبی ﷺ کی زبان سے نکلنا اور پھر اللہ کا اس کو منسوخ کرنا واقعۂ غرانیق کہلاتا ہے، اور کیا یہ واقعہ واقعی درست ہے یا ضعیف و من گھڑت روایات پر مبنی ہے ؟
سوال:
(وما ارسلنا من قبلك من رسول ولا نبي الا اذا تمنى القى الشيطان في امنيته فينسخ الله ما يلقي الشيطان ثم يحكم الله اياته) کہ ہر نبی کی آرزو میں شیطان کچھ ملا دیتا ہے پھر اللہ اس ملاوٹ کو دور کر کے انہی آیات کو ثابت رکھتا ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار سورہ نجم کیپ تلاوت فرما رہے تھے جہاں غیر ایمان والے بھی موجود تھے جب آپ (ومنوة الثالثةالاخرى) تک پہنچے تو آپ کی زبان سے بے ساختہ شیطان نے یہ کلمہ نکال دیا (تلك الغرانيق العلى وان شفاعتهن لتزتجي) یعنی یہ بڑےقدآور بت ہیں ان کی شفاعت مقبول ہے۔
جواب:
یہ واقعہ بالکل جھوٹ ہے بعض سادہ مزاج کے مفسرین نے بغیر تحقیق کے واقعہ لکھ دیا ہے جمہور نے اس کی رد کی ہے دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے
دلائل نقلیہ میں سے لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه الايه کہ قرآن میں نہ کسی طرف سے غلطی مل سکتی ہے نہ باطل کا اس میں گزر ہو سکتا ہے
(وبالحق انزلناه بالحق نزل) قرآن کو حق کے ساتھ ہم نے نازل کیا اور وہ حق کے ساتھ نازل ہوا۔
( انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحافظون) یعنی قرآن کو ہم ہی نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
لہذا ان آیات کے مقابلے میں یہ بے اصل واقعہ جس کو نہ کسی محقق نے نہ کسی محدث نے کسی سند سے بھی روایت نہیں کیا تو اس کا کیا اعتبار ہے؟
اور اس آیت میں اس واقعہ کا کچھ ذکر نہیں لہذا اس کا تذکرہ فضول ہے آیت مذکورہ سے صرف اتنا ثابت ہے کہ کوئی بھی نبی مقتضائے بشریت سے خالی نہیں اس کے بعض خیالات میں قوت بہیمیہ (وہ خواہشات جو جانداروں کو آتے ہیں) کی وجہ سے نفسانی خطرات کا ذرا اثر آجاتا ہے لیکن اللہ تعالی اس نبی کو نور نبوت پر ثابت رکھتا ہے اور ان خطرات شیطانی کو دور کر دیتا ہے اور اسی لحاظ سے انبیاء کرام کو معصوم ہونا ضروری مانا گیا ۔لیکن بعض مفسرین نے تمني کو قرء معنی پر لے کر اور ایات سے آیت قرآنی سمجھ کر اور نسخ سے اصطلاحی معنی خیال کر کے یہ جھوٹا واقعہ کو قرار دے دیا۔

