سوال : کیا حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت عائشہؓ کی روایات کی روشنی میں یہ احتمال درست ہے کہ قرآن کی کچھ آیات گم ہو گئیں یا صحابہ کرامؓ نے اہل بیت کی تعریف والی آیات کو جان بوجھ کر قرآن سے حذف کیا، جیسا کہ بعض شیعہ علماء دعویٰ کرتے ہیں؟
سوال:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت لقد جاءكم رسول من انفسكم میں نے تمام جگہ تلاش کیا کہیں نہ ملی مگر ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس لکھی ہوئی ملی اور اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک آیت لکھی ہوئی ہمارے پلنگ کے نیچے پڑی تھی اسے بکری کھا گئی بس اسی طرح اور بھی روایات ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے ممکن ہے قرآن کے بہت ساری آیتیں اس طرح رہ گئی ہوں یا اسی طرح حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین نے وہ آیات درج نہ کیے ہوں جن میں اہل بیت کی تعریف کی گئی تھی جیسا کہ شیعہ لوگ کہتے ہیں انہوں نے قرآن کے 10 پارے کم کر دیے ہیں؟
جواب:
اس کا جواب بہت آسان ہے مان لیا جائے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ایک آیت نہیں بلکہ 10، 20 آیت بھی نہ ملی اور 100، 200 آیت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بکری بلکہ آدھا قران بھی کھا گئی تھی ۔تب بھی قرآن میں اصل منزل من السماء کے اعتبار سے ایک حرف کی کمی نہ تھی ۔ہاں اگر دیگر کتابوں کی طرح قرآن کا دارومدار بھی ایک نسخے پر ہوتا تو احتمال تھا کہ ایک دو ورق چلے جانے سے کچھ قرآن جاتا رہا ہو ۔مگر یہاں تو حفظ پر دارومدار تھا اور شروع ہی زمانے میں بے شمار ایسے پکے حافظ موجود تھے کہ جن میں سے ایک ،ایک قرآن کے لفظ، لفظ پر حاوی تھے۔ خیر اس زمانے کی بات چھوڑیے اس کمزور دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر روئے زمین سے قرآن کریم ختم ہو جائے (اللہ ایسا نہ کرے) تو ایک ادنی گاؤں کے لوگ اپنی یاد سے حرف بحرف قرآن کریم لکھوا سکتے ہیں ۔
پس دوسری کتابوں پر قرآن کریم کو قیاس کرنا محض بیہودہ خیال ہے اور آج تک سلف سے لے کر خلف تک کوئی محقق شیعہ بلکہ کوئی اہل اسلام بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ قرآن کریم کے 10 پارے کو انہوں نے کم کر دیا ہے۔ چنانچہ شیعہ عالم دین شیخ صدوق ابو جعفر محمد بن علی بابویہ نے اپنی رسالہ عقائد میں اس عقیدے سے برأت کا اظہار کیا ہے۔

