img
img

سوال : کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کے بارے میں احادیث جیسے “وكتب هذا ما قاضي محمد بن عبد الله” اور لفظوں کی تبدیلی کی روایت درست اور معتبر ہیں، جب کہ عام طور پر انہیں امی (ناخواندہ) بتایا جاتا ہے ؟

سوال:

قرآن اور تاریخ گواہ ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ لکھ سکتے تھے نہ پڑھ سکتے تھے لیکن بخاری شریف میں ہے آپ لکھ سکتے تھے جیسا کہ اس حدیث میں ہے وكتب هذا ما قاضي محمد بن عبد الله پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھ دیا کہ یہ وہ فیصلہ ہے جس کو انہوں نے تسلیم کر لیا ہے اسی طرح اور ایک روایت (tradition)میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لفظ رسول اللہ کو کھرچ دیا تھا اور بن عبداللہ کا لفظ بڑھا دیا تھا اس حدیث پر باقی محدثین نے بھی اعتماد کیا ہے؟

جواب:

ٹھیک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے اور یہ بھی صحیح ہے کہ آپ نے رسول اللہ کا لفظ کھرچ دیا تھا لیکن بخاری کے کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ لکھ سکتے تھے اور جس حدیث میں کتابت کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے دراصل اس کا مطلب یہ ہے آپ نے اپنے کاتب کو حکم دیا تھا لکھنے کے لیے۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں اسی طرح کے مضمون ذکر ہیں جیسے آپ نے ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ کو سنگسار کیا، آپ نے چور کا ہاتھ کاٹا وغیرہ دراصل ان تمام صورت میں آپ نے کرنے کا حکم دیا تھا آپ نے خود انجام نہیں دیا تھا ۔
اسی طرح اللہ تبارک و تعالی کا قول سنكتب ما قالوا (سوره ال عمران رکوع ١٩) اب وہ جو کہیں گے ہم اس کو لکھ لیں گے .اس میں کتابت کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے کیا خود اللہ تبارک و تعالی لکھے گا؟ ٹھیک اسی طرح وہاں بھی لکھنے کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے لیکن کاتب کوئی اور ہے۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *