img
img

سوال : قرآن کے قدیم نسخوں میں اعراب نہ ہونے کی وجہ کیا ہے، اور آج کے دور میں قرآن میں حرکت اور اعراب شامل کرنے کی ضرورت کیوں پڑی، جبکہ اعراب کی تبدیلی سے الفاظ کے معنی میں بڑا فرق آ سکتا ہے ؟

اعتراض:

لندن کے عجائب گھر(Museum) میں جو سب سے قرآن کا قدیم ترین پرانا نسخہ موجود ہے اس پر کیوں اعراب نہیں؟ اور موجودہ زمانے میں قرآن میں حرکت کیوں دینا پڑا؟ جبکہ ایک زبر ،زیر ،مد یا حرکت کے شامل کرنے یا بدلنے سے عربی الفاظ کے مطلب میں آسمان اور زمین کا فرق پڑ سکتا ہے؟

جواب:

 اعراب وہ نشانات ہیں جو لفظوں کے حروف کی حرکات اور سکنات کو ظاہر کرنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں ایک زمانہ تھا جب عبرانی اور عربی زبان بغیر اعراب کے لکھی جاتی تھی چونکہ یہ زبان عام بولی جاتی تھی اس لیے صحیح تلفظ ظاہر کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی (قاموس الکتاب تحت اعراب صفحہ 65 )۔

 ساتویں صدی عیسوی میں مسوراتی علماء نے کچھ نشانات مقرر کیے یعنی شامی تاثرات کے تحت حروف علت و حرکت اور چھوٹے بڑے اعراب کو ایجاد کیا ۔عبرانی آسمانی کتابوں کے الفاظ کے اس تلفظ کو جو قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا ہمیشہ کے لیے قائم رکھ دیا۔ یہی اعراب اس زمانے کے تمام نسخوں میں موجود ہیں۔
اور رہی بات قرآن پر اعراب لگانے کی قرآن تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ جمع کر دیے تھے۔
اپ کی وفات کے تقریباً 83 سال بعد قرآن میں اعراب لگائے گئے تو اس وقت بے شمار، لاتعداد حافظ قرآن موجود تھے لہذا قرآن میں اگر غلط اعراب ہوتا تو وہ حفاظ کی طرف سے ضرور اعتراض ہوتا ۔ایسا کہیں واقعہ نہیں ملتا لہذا آپ کا اعتراض کرنا ہی صحیح نہیں ہے۔

اور اس زمانے میں بھی اس قسم کا اعتراض کرنا جبکہ عربی زبان کے قواعد باقاعدہ ہر ملک میں پڑھائے جاتے ہیں اور ایسے افراد موجود ہیں جو قرآن کریم کے صحیح اعراب لگانے پر مکمل قدرت رکھتے ہیں۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *