img
img

سوال : قرآن میں تکرار بہت ہے پھر یہ اللہ کا کلام کیسے ؟

جواب :
عام طور پر تقریر و تحریر میں کسی جملے یا الفاظ کی تکرار ایک عیب یا خامی تصور کی جاتی ہے مگر جب کسی فقرے کو ایک فنی اوزار اور ٹیکنیک کے حصے کے طور پر تقریر کو موثر اور بلیغ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ جملہ یا فقرہ اصل نثر و نظم کی ایک خوبی بن جاتا ہے قرآن میں اسی تکرار کی ٹیکنیک کا کئی موقعوں پر فنکار انہ استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے قرآن کے حسن و بلاغت اور تاثیر میں اضافہ ہو گیا ہے اور یہی تکرار تاکیدکا بھی فائدہ دیتا ہے اسی لیے یہ بھی فصاحت اور بلاغت کے خلاف نہیں علامہ سیوطی نے اس تکرار کا نام تردید بتلایا ہےجو عرب کے کلام میں مستحسن اور شیریں سمجھا گیا ہے اور صرف عربی نہیں فارسی اردو وغیرہ زبانوں کے مسلم شعرا کے کلام میں بھی اس کی نظیر ملتی ہے اور کلام کی ایک مقدار کے بعد ایک ہی جملہ مکرر آئے تو اس کو تردید کہتے ہیں جیسے ( ان فی ذالک لآیہ)(شعراء)
اور ہر جملے کے بعد ایک جملہ بار بار آئے تو اس کو تکریر کہتے ہیں جیسے کہ (سورہ رحمن)
قرآن خوبیاں اور حلاوت اپنے جلو میں لیے ہوئے ہیں جیسے جنت کی شراب میں نشہ نہیں مگر سرور ہے اسی طرح تردید وہ تکرار سے طبیعت میں سرور و فرحت پیدا ہوتی ہے اسی لیے قرآن میں اس کا بھی نمونہ ہے نظموں میں حلاوت ہی کے لیے مطلع بار بار دہرایا جاتا ہے۔
مثال: باپ کی شفقت ہر بیٹے پر بہت ہوتی ہے باپ بیٹے کو کس کس طرح سے سمجھاتا ہے صرف ایک مرتبہ سمجھانے پر اکتفا نہیں کرتا اور نہ ایک مرتبہ کے بعد مواخذہ کرتا ہے بلکہ ایک دو تین چار بار سمجھاتا ہے جب تک کہ بیٹے کی اصلاح نہ ہو۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *