سوال : قرآن پڑھنے کے سات طریقے ہیں اس کا مطلب اس میں تبدیلی ہو گئی ہے ؟
جواب :
قرآن سات طریقوں سے پڑھا جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ قرآن ہی فرفیکٹ ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے کیونکہ سات طریقوں سے پڑھے جانے کا مطلب ہے کہ معنی اور مطلب ایک ہے، رسمِ الفاظ اگرچہ مختلف ہو۔
دراصل قرآن ایک ہی زبان عربی میں ہی نازل ہوا لیکن نزول قرآن کے وقت عرب کے سارے قبائل خواندہ نہ تھے لیکن ذہین تھے رٹتے نہیں تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے مختلف الفاظ سے پڑھنے کے لیے کہا ،اس کے بعد میں سارے قبائل کی لغات کا اختلاف ختم ہو گیا سات طریقے ایک طریقے کی طرف واپس آگئے یعنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لہجے پر قرآن پڑھنے پر سب کو پابند کر دیا۔
مثال: باپ کو انگلش میں کوئی پاپا یا ڈیڈ یا ڈیڈی وغیرہ بولتے ہیں اور یہ بچپن سے لے کر سمجھ آنے تک بولا جاتا ہے پھر سمجھ آنے کے بعد ایک لفظ پوری زندگی بولتا ہے.
نتیجہ: باپ ایک ہے معنی پیدا کرنے والے الفاظ الگ ہیں اور بعد میں بڑے ہونے کے بعد ایک لفظ پر پوری زندگی گزارتا ہے تو معلوم ہوا قرآن ہی پرفیکٹ کتاب ہے جو اصل میں عربی میں نازل ہوا پھر شروع میں معنی کی تبدیلی کے بغیر مختلف الفاظ میں پڑھنے کی اجازت ملی اور بعد میں ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی لغت و زبان اور الفاظ پر سب کو پابند کر دیا قرآن کی مثال کی جگہ یا فرقان کی جگہ قرآن پڑھے تو شروع میں اس کی گنجائش تھی بعد میں ختم ہو گئی۔
(ماخوذ:تحفۃ القاری جلد 10، صفحہ 63۔۔۔۔تحفۃ الالمعی جلد 7، صفحہ 96)

