سوال : قرآن کی بعض آیات سے بظاہر لگتا ہے کہ نبی ﷺ ابتدا میں ہدایت یا ایمان سے ناواقف تھے، جبکہ احادیث میں آپ کو پیدائشی طور پر ہدایت یافتہ بتایا گیا ہے—تو کیا قرآن و حدیث میں تعارض ہے؟
سوال:
قرآن کریم میں سورة الاضحی میں ارشاد باری تعالی ہے ووجدك ضالا فهدى اور اللہ نے آپ کو بے راہ پایا پھر ہدایت دے دی اسی طرح سورۃ الشوری میں ہے ما كنت تدري ما الكتاب ولا الايمان ولكن جعلناه نورا نهدي به من نشاء من عبادنا
ترجمہ: آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے لیکن ہم نے اس کو ایک نور بنا دیا جس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔
قرآن کریم کی ان دونوں آیتوں میں صاف طور پر موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء میں گمراہی اور جہالت میں( نعوذ باللہ )مبتلا تھے پھر اللہ نے راہ دکھلایا لیکن اس کے برعکس حدیث میں موجود ہے کہ آپ پیدائشی طور پر ایمان کے ساتھ متصف تھے اور اس لیے آپ سے بہت سارے معجزات ظاہر ہوئے ۔مذکورہ مضمون سے قرآن اور حدیث کے درمیان تعارض معلوم ہو رہا ہے ؟
جواب:
پہلی آیت ووجدك ضالا فهدی کی تفسير:
اس آیت کی مختلف تفسیر کی گئی ہے لیکن کسی بھی تفسیر میں ضالا سے مراد ضالا عن الایمان یعنی ایمان سے بھٹکا ہوا نہیں ہے اس آیت کی چند تفسیر بیان کی جاتی ہے جسے معلوم ہو جائے گا کہ قرآن اور حدیث کے درمیان تعارض نہیں ہے۔
١.مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کو اپنی شریعت سے ناواقف پایا یعنی آپ کو شریعت کا علم اللہ کے الہام کرنے کے بعد ہوا یا وحی کے ذریعے غرض خدا نے آپ کی رہنمائی کی اور وحی کے ذریعہ حکم اور احکام کی تعلیم دی۔
٢. اسی طرح تفسیر قرطبی صفحہ 97 ،98 اور تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ 523 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرفوع روایات میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ایک مرتبہ میں بچپن میں اپنے دادا عبدالمطلب سے راستہ بھول گیا اور بھٹک گیا قریب تھا کہ بھوک کی شدت سے جان جاتی رہے لیکن اللہ نے صحیح راہ تک پہنچا دیا اور میں دادا تک پہنچ گیا اس کے علاوہ دوسرے کئی مطالب بیان کیے گئے ہیں جس سے قرآن و حدیث کے درمیان تعارض نہیں رہتا ۔
دوسری آیت( ما كنت تدري) میں کتاب سے مراد قرآن اور ایمان سے مراد احکام شرعیہ کی تفصیلات ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نازل ہونے سے پہلے اس کے پڑھنے اور تمام فرائض و احکام کا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ تھا یہ بات یقینی طور پر صحیح ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے نازل ہونے سے پہلے توحید پر اجمالی طور پر ایمان رکھتے تھے اس کی اور تمام احکام شرعیہ کی تفصیلات کا حل آپ کو معلوم نہ تھا لہذا ان دونوں آیتوں میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اپ نعوذ باللہ ابتداء میں گمراہی اور جہالت میں مبتلا تھے لہذا قرآن و حدیث کے درمیان کوئی تعارض نہیں۔

