img
img

سوال : ایک طرف کہا گیا کہ اس کتاب میں ریب یعنی شک نہیں ہے اور دوسری طرف سورۂ یونس کی آیت نمبر 94 میں کہا کہ اس میں شک ہے۔ قرآن کا دعوی ہے کہ اس کی آیات میں اختلاف نہیں ان دونوں آیتوں میں تضاد اور اختلاف ہے لہذا یہ اللہ کی کتاب نہیں ؟

اعتراض :

آیت نمبر 1 :
ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ .
ترجمہ :
یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں ، کہ (کلامِ خدا ہے خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے ۔
( سورۂ بقرہ آیت 2 )

آیت نمبر 2
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ۔
ترجمہ :
سو اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری تو ان سے پوچھ لے جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں بے شک تیرے پاس تیرے رب سے حق بات آئی تو شک کرنے والوں میں ہرگز نہ ہو (سورۂ یونس آیت 94)

ان دو آیات کو پیش کر کے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان میں تضاد ہے کہ ایک طرف کہا گیا کہ اس کتاب میں ریب یعنی شک نہیں ہے اور دوسری طرف سورۂ یونس کی آیت نمبر 94 میں کہا کہ اس میں شک ہے۔ قرآن کا دعوی ہے کہ اس کی آیات میں اختلاف نہیں ان دونوں آیتوں میں تضاد اور اختلاف ہے لہذا یہ اللہ کی کتاب نہیں ۔

جواب :
حسبِ معمول معترض نے یہاں بھی بھی قطع و برید سے کام لیا ہے ، بغض اور حسد میں آدمی کو اتنا بھی اندھا نہیں ہونا چاہیے کہ علمی خیانت کرتے ہوئے سفید جھوٹ بولے ، پہلی آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں یعنی یہ کتاب جو قرآن ہے اس کے وحیِ الہی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں دوسری آیت سورۂ یونس کی اس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں سو اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری تو ان سے پوچھ لو جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں ، بے شک تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے حق بات آئی ہے سو شک کرنے والوں میں ہرگز نہ ہو ۔
یعنی اگر تجھے اس میں ( کس میں)جو تیری طرف نازل کی تو ان سے پوچھ لے جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں اب اس ٹکڑے کو ذرا غور سے دیکھیے آیتِ کریمہ حرفِ شرط إن سے شروع ہو رہی ہے شرط سے شروع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس میں شک ہے تو پھر ان سے پوچھو جو پہلے کتاب دیے گئے یہاں کتاب میں شک کی بات نہیں کہی جارہی ہے بلکہ انسانی ذہن میں تشکیک کی بات کہی جارہی ہے ۔ آئیے اس چیز کو سمجھنے کے لیے ایک اور آیت دیکھتے ہیں کہ اس کتاب کے وحی ہونے میں اگر شک ہے تو اس کتاب کا چیلنج بھی قبول کرو ۔
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِه
ترجمہ :
اور جو کلام ہم نے اپنے عبد (مقدس) پر نازل کیا ہے اگر تم کو اس ( کے منزل من اللہ ہونے میں) شک ہے تو اس جیسی کوئی سورۃ بنا کر لے آؤ ۔
اگلی آیت میں اسی چیلنج کو نتیجے کے طور پر یوں پیش کیا گیا ہے :
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ .
ترجمہ:
پھر اگر نہ لا سکو (اور ہم فرمائے دیتے ہیں) کہ ہرگز نہ لا سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں تیار کر رکھی ہے کافروں کے لیے ۔
اس چیلنج کو ہم عجمی تو کیا 1400 سال سے افصح عرب ادباء اور شعراء بڑے بڑے بڑے سحبانِ زمانہ بھی قبول نہ کرسکے ۔ آج کل کے زعمِ باطل رکھنے والے جو فصاحت و بلاغت تو کجا اردو سے بھی درست آشنائی نہیں رکھتے وہ کیا کرسکیں گے ۔
مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرکین کو اس میں شک تھا ، سورۂ بقرہ کی آیت 2 میں کہا گیا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ قرآنِ مجید فصاحت و بلاغت کے ایسے مرتبے پر فائز ہے کہ اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک و تردد نہیں اور جو شخص کھلے ذہن اور بصیرت کی آنکھوں سے اس کو پڑھے گا یا بہ غور سنے گا تو اسے اس کے کلام اللہ ہونے میں کوئی شک اور شبہ نہیں ہوگا ۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی شخص اس میں شک نہیں کرتا بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب اپنے واضح اور روشن دلائل کی وجہ سے شک کی محل نہیں ہے اور اس میں تردد کی بھی کوئی گنجائش نہیں ۔
اس کے باوجود اگر کفار و مشرکین اس میں شک کرتے ہیں تو اس کی وجہ ان کی بصیرت سے محرومی اور ہٹ دھرمی ہے اور انہوں نے اپنے دماغ کے دریچے بند کرلیا ہے کیوں کہ وہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
ذلك الكتاب لا ريب فيه اس میں ‘فیه’ ریب کی صفت ہے اور للمتقین اس کی خبر ہے یعنی یہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں متقین کے لیے ہدایت ہے ۔ اور ساتھ ہی سورۂ یونس کی آیت کا اگلا ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں :
جس سے بات اور صاف ہوتی ہے بلکہ تصدیق ہوتی ہے جس کو معترض اپنی کم علمی کی وجہ سے تضاد کے طور پر لایا تھا ۔
لقد جاءك الحق من ربك
ترجمہ :
بے شک تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے حق بات آئی ہے ۔
بتائیے یہ تو اوپر والی آیت اور پہلے ٹکڑے کی تصدیق ہو گئی کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اس میں شک نہیں اور آیت کا آخری ٹکڑا بھی دیکھ لیجئے جو ساری آیت کا نچوڑ اور نتیجہ ہے :
” فلا تكونن من الممترين “
ترجمہ :
سو شک کرنے والوں میں ہرگز نہ ہو ۔

سیاق و سباق کے ملانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سورۂ یونس کی آیت 94 شرط سے شروع ہو رہی ہے کہ ” اگر شک ہو ” یہ نہیں فرمایا کہ ہاں شک ہے (نعوذ باللہ) دوسرا ٹکڑا ساتھ ملائیں تو پوری بات یوں بنتی ہے کہ اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری تو ان سے پوچھ لے جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں بے شک تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے حق بات آئی اس کا دوسرا جزئیہ یہ ہے کہ پھر جو پہلے کتابیں پڑھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ بھی ( توراۃ انجیل زبور ) رب کی طرف سے ہیں اور قرآن بھی حق اور سچ ہے اور اللہ ہی کی طرف سے ہے ۔
سورۂ یونس کے متعلق مفسرین کے اقوال میں سے راجح قول :-

كما قال الآلوسي
قيل الخطاب له صلى الله عليه وآله وسلم والمراد به امته او لكل من يسمع أي ان كنت ايها السامع في شك مما انزلنا على لسان نبينا اليك فاسال الخ .
ترجمہ :
یعنی خطاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے مگر اس سے مراد امتِ مرحومہ ہے یا ہر وہ شخص جو اس آیت کریمہ کو سنے ، تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اے سننے والے تو اگر شک میں ہے اس پر جو ہم نے نازل فرمایا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر تو پوچھ لے ان سے جو اہلِ کتاب میں تجھ سے پہلے تھے جیسے عبد اللہ ابن سلام ، تمیم داری کعب احبار وغیرہ ہیں (رضی اللہ عنہم) ۔
ان تفصیلات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ دونوں آیتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں دونوں کے مضامین صحیح اور مبنی بر حقیقت ہیں کہ پہلی آیت میں قرآن کریم میں شک نہ ہونے کی بات کہی گئی ہے جبکہ دوسری آیت میں خطاب اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر اس سے پوری امت محمدیہ مراد ہے کہ اگر تمہیں شک ہو تو اہل کتاب مومنین کو دیکھ لو جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی جیسے عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں ۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *