سوال : قرآن ایک طرف کہتا ہے اسلام کے سوا دین قبول نہیں، دوسری طرف کہتا ہے یہودی، عیسائی، صابی جو ایمان لائیں نیک عمل کریں وہ غمگین نہ ہوں گے — کیا یہ آیات متضاد نہیں؟ اگر ہاں، تو پھر یہ اللہ کی کتاب کیسے ہو سکتی ہے؟
اعتراض :
آیت نمبر 1
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ .
ترجمہ :
مسلمان صابی یہودی عیسائی جو بھی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو وہ آخرت میں بے خوف ہوگا ، اسے کوئی رنج اور غم نہ ہوگا ۔
(سورۂ بقرہ آیت 62)
آیت نمبر 2
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ .
ترجمہ :
جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو تلاش کرے گا اس کا دین ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا ۔
(سورۂ آل عمران آیت 85)
ان دونوں آیات کو پیش کر کے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ پہلے اللہ یہ کہتا ہے کہ اسلام کے سوا کسی اور دین کو تلاش کرے تو اس کا دین قابل قبول نہیں ۔ جب کہ دوسری طرف کہتا ہے کہ مسلمان ، یہودی ، صابی اور عیسائی جو بھی اللہ پر ایمان لائے اور روزِ جزاء پر ایمان لائے نیک عمل کرے تو آخرت میں بے خوف ہوگا اسے کوئی رنج اور غم نہیں ہوگا یعنی ایک طرف تو یہ کہہ رہا ہے کہ اسلام کے سوا کسی اور دین کو تلاش نہ کرے دوسری طرف یہ کہہ رہا ہے کہ یہودی عیسائی صابی جو اللہ پر ایمان لائے وہ بھی بے خوف ہوگا اسے کوئی رنج و غم نہیں ہوگا ۔
اور قرآن کا یہ دعوی ہے کہ قرآن کی آیتوں میں آپس میں اختلاف نہیں ہے ان دونوں آیتوں میں اختلاف اور تضاد ہے لہذا یہ اللہ کی کتاب نہیں ہے ۔
جواب :
ہر بار کی طرح یہاں بھی اعتراض کرنے والے کو بات سمجھ میں نہیں آئی ہے لیکن اس کی انکھوں سے پردہ ہٹانا ہماری ذمہ داری ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تمام انبیاء ایک ہی دین کی دعوت لے کر بھیجے گئے سب کی متفق علیہ دعوت لا الہ الا اللہ رہی ہے یعنی توحید و رسالت اور آخرت ، قرآن کریم نے جگہ جگہ اس کی خبر دی ہے اس کے علاوہ تمام انبیاء کو جب نبوت ملی تو ان سے ایک عہد اور وعدہ لیا گیا جس کا ذکر بھی قرآن مجید میں ہے ۔
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ .
ترجمہ:
اور جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب تم کو کتاب اور دانائی عطاء کروں ، پھر تمھارے پاس ایک رسول آئے جو تمھاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور عہد لینے کے بعد پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا ( مجھے ضامن ٹھہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا خدا نے فرمایا کہ تم گواہ رہو ( اس عہد و پیمان پر ) اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ رہوں گا ۔
جب انبیاء علیہم السلام سے یہ عہد اور وعدہ لیا گیا کہ جب بھی آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں گے تو ان پہ ایمان لانا اور ان کے مشنِ حق کی تصدیق کرنا سب پر لازم ہے تو اس عہد اور وعدے کے تحت تمام انبیاء اپنے ماننے والوں کو اس کی خبر دیتے ہیں ، اور یہی مضمون دیگر آسمانی کتابوں میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک نبی آئے گا اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی ۔
قرآن کریم میں بھی اس کی منظر کشی کی گئی “
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ .
ترجمہ :
اور یاد کرو اس وقت کو جب عیسی ابن مریم علیہما السلام نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے پہلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرنے والا اور اپنے بعد ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے ۔ لیکن پھر بھی جب وہ معجزات لے کر آئے تو لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے ۔
ان آیات سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ جب تک ہر پیغمبر کے ماننے والے اپنے نبی اور رسول کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے جن میں آخری پیغمبر کی تصدیق بھی شامل ہے تو چاہے وہ حضرت موسی کے امتی ہوں یا حضرت عیسی کے ( علیہما السلام ) وہ مسلمان ہی تھے ، پھر جیسے ہی حضور پر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے دیگر امتیوں کے لیے آپ کی تعلیمات کی تصدیق لازم ٹھہری ۔
اس پورے مقدمے کے بعد یہ سمجھیے کہ دراصل آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جو پیغام لائے وہی اسلام ہے اور اسلام کیا ہے؟ اسلام نام ہے اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اسلام کا مقصد اللہ کی عبادت ہے اسلام کی پانچ بنیادی باتیں ہیں ۔
اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانا، اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لانا نیز یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اخری نبی ہیں ، تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا جن میں آخری کتاب قران مجید ہے، قیامت پر ایمان لانا اور اللہ کے فرشتوں پر ایمان لانا اب جو بھی شخص ان پر عمل کرے گا وہ مسلمان ہے ۔ جو ان سے انحراف کرے گا وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہے ۔ اس طرح ہر نبی کی دعوت اسلام کی دعوت تھی اور ہر نبی کے امتی اسلام پر عمل کرتے تھے تضاد کے طور پر جو آیات پیش کی گئی ہیں پھر سے ملاحظہ کریں کہ اللہ فرماتا ہے کہ کوئی بھی شخص ہو وہ خود کو کسی بھی نبی سے منسوب کرے وہ اس نبی کی تمام مطلوبہ تعلیمات پر عمل کرے تو خدا کے یہاں یہی مصدقہ دین ہے اب جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت سے قبل خود کو یہودی یا عیسائی کہتے تھے آپ کی بعثت کے بعد ان کے مذہبی تعلیمات کے مطابق توحید سے لے کر ہر پیغمبر پر ایمان لانا لازم تھا اسی لیے اللہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد گو کہ وہ یہودی ہو یا عیسائی اس کو قبول کیا جائے گا اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ بہت سے عیسائی یہودی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل آپ کے منتظر تھے اور تبلیغ کے طور پر اس پیغام کو اگے پہنچاتے رہے ان میں سے بعض آپ کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان بھی لے آئے ۔ بس یہی باتیں ان آیات میں ذکر کی گئی ہیں جن کو معترض نے بہ طور تضاد پیش کیا ہے جبکہ اس میں حقیقتا کوئی تضاد نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہماری راہنمائی فرمائے ۔ آمین