سوال : قرآن کبھی ایک مشرق و مغرب، کبھی دو، اور کبھی کئی مشارق و مغارب کہتا ہے — کیا یہ تضاد نہیں؟ اگر ہے تو قرآن اللہ کی کتاب کیسے ہو سکتی ہے؟
اعتراض :
آیت نمبر1 : ولله المشرق والمغرب .
آیت نمبر 2 : رب المشرقين ورب المغربين .
آیت نمبر 3 : فلا أقسم برب المشارق والمغارب إنا لقادرون .
(سورۂ بقرہ آیت 142)
(سورۂ رحمن آیت 17)
(سورۂ معارج آیت40)
معترض یہ کہتا ہے کہ اللہ نے سورۂ بقرہ میں مشرق اور مغرب کہا سورۂ رحمن میں دو مشرق اور دو مغرب اور سورۂ معارج میں مشارق اور مغارب کہا یعنی قرآنی آیات میں تطابق نہیں بلکہ تضاد ہے، (نعوذ باللہ) اللہ متعین نہیں کر پارہا ہے کہ مشرق و مغرب ایک ایک ہیں یا زائد ، اور قرآن کا دعوی بہ زعمِ خود باطل ہوگیا۔
اس لیے یہ قرآن اللہ کی کتاب نہیں ہے ۔
جواب :
معمول کے مطابق لگتا ہے کہ اعتراض کرنے والے نے آیات قرآنیہ کے ظاہر سے ہی فیصلہ کرلیا ان کو بہ غور سمجھنے کی ، جدید علوم سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہیں کی ، قرآن کریم میں مشرق و مغرب واحد تثنیہ اور جمع تینوں صیغوں میں استعمال ہوا ہے علمِ ہیئت سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ قدیم علوم و فنون میں اور قدیم زمانوں میں ؛ مشرق و مغرب ہی اصل سمت تھے کیوں کہ جہاں سے سورج روشن ہوتا ہے یعنی نکلتا ہے وہ مشرق ، اور جہاں ڈوبتا ہے وہ مغرب ، مشرقین اور مغربین سے مراد خاص گرمی اور سردی ، دو موسموں کے مشرق اور مغرب ہیں ، کیوں کہ سردی اور گرمی میں آفتاب کا مطلع بدلتا رہتا ہے اس لیے سردی کے زمانے میں مشرق یعنی آفتاب کے روشن ہونے کی جگہ اور ہوتی ہے ، گرمی میں اور ہوتی ہے ، اسی وجہ سے ان دونوں جگہوں کو مشرقین کہا گیا اس کے بالمقابل مغربین سردی میں غروبِ آفتاب کی جگہ اور ہوتی ہے ، گرمی میں اور ہوتی ہے ، مشارق جمع ہے مشرق کی ، مغارب جمع ہے مغرب کی ، آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کی جگہ سال بھر میں موسموں کے تغیر کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیں جیسا کہ اوپر یہ بات واضح ہوگئی ۔ آسانی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تواترا منقول دعا ملاحظہ فرمائیں :
اللهم بعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب ، یا حدیث ہی سے ایک اور مثال کہ جہنم کے گڈھے کی گہرائی اتنی ہے جتنی مغرب اور مشرق کے درمیان کی دوری ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مشرق اور مغرب ایک دوسرے سے بہت وسیع فاصلے پر ہیں ۔
اب جغرافیہ کے اعتبار سے ان آیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
بنیادی طور پر زمین کی چار سمتیں ہیں مشرق و مغرب شمال و جنوب ، یہ تقسیم زمین کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے ، جس خط سے تقسیم کی جاتی ہے اسے خطِ استواء کہتے ہیں گلوب یا دنیا کے نقشے میں بالکل درمیان میں ایک فرضی لکیر کھینچی ہوتی ہے اسی کو خطِ استواء ( Equator ) کہتے ہیں ، خطِ استواء سے تقریبا 23.5 ڈگری شمال میں خطِ سرطان (خیالی دائرہ) واقع ہے جسے Tropico of cancer کہتے ہیں ، یہ اس لیے اہم سمجھا جاتا ہے کہ سورج سال میں ایک بار 21 یا 22 جون کو اس مقام پر بالکل سیدھا چمکتا ہے اس دن زمین کے شمالی حصوں میں سب سے لمبا دن ہوتا ہے ۔ عموما خطِ سرطان کے علاقوں میں موسم گرم رہتا ہے کیوں کہ سورج کی کرنیں براہ راست ان پر پڑتی ہیں ۔
دوسرا خط ہے خطِ جدی (خیالی دائرہ) جو خطِ استواء کے تقریبا 23.5 ڈگری جنوب میں واقع ہے جسے Tropico of Capricorn کہتے ہیں ۔
یہاں بھی سورج سال میں ایک بار 22 دسمبر کو بالکل سیدھا چمکتا ہے ، اس دن جنوب کے علاقوں میں سب سے لمبا دن ہوتا ہے ۔
اس خط کے قریب علاقوں میں بھی موسم گرم رہتا ہے کیوں کہ یہاں بھی سورج کی کرنیں براہِ راست پڑتی ہیں ۔ اب سمجھیے کہ21 یا 22 جون میں سورج قطبِ شمالی کی طرف جھکا ہوتا ہے اور قطب جنوبی سے ہٹا ہوا ، جس کی وجہ سے جنوبی حصوں میں سردی کا موسم ہوتا ہے ، خط استواء پر دن اور رات برابر ہوتے ہیں ، شمالی حصوں میں دن بڑا اور رات چھوٹی ہوتی ہے ، جنوبی حصے میں راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح 22 دسمبر کو سورج قطب جنوبی کی طرف جھکا ہوتا ہے اس حال میں جنوب میں گرمی بڑھتی ہے یعنی دن لمبا رات چھوٹی اس کے برعکس شمالی حصوں میں سردیاں ہوتی ہیں یعنی رات لمبی اور دن چھوٹا ۔
ان دونوں کی وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ ہم سمجھ پائیں کہ خطوط پر موسموں کا تغیر کیا معنی رکھتا ہے ؟ یعنی 22 جون گرمی کا گرم اور لمبا دن اور چھوٹی رات والا ہوتا ہے۔
اور 22 دسمبر سردی کا چھوٹا دن اور لمبی رات والا ہوتاہے۔
ان دونوں خطوط کی تفصیلات سے دو مشرق اور دو مغرب کی طرف اشارہ مل رہا ہے کہ خطِ استواء سے ایک طرف سورج کے جھکنے سے گرمی کے دن کا بڑا ہو جانا اور ایک طرف سورج کے ہٹے ہونے کی وجہ سے موسم کا سرد اور دن کا چھوٹا ہوجانا ۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کہیں سورج طلوع ہو رہاہو تو عین اسی وقت کہیں غروب ہوتا ہے ۔ کہیں غروب ہو رہاہو تو عین اسی وقت کہیں طلوع ہورہا ہوتا ہے ۔
خطِ استواء کا عینِ مطابق ہونا ایک مشرق اور ایک مغرب پر دلالت کرتا ہے ۔
دو انتہاؤں کا ہونا دو مشرقوں اور دو مغربوں کی طرف اشارہ ہے ۔ تیسرے پوائنٹ آف ریفرنس سے ایک سال کے درمیان 365 ایام میں سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے مختلف مقامات کی طرف مشارق اور مغارب جیسے الفاظ نشاندہی کر رہے ہیں، کیوں کہ سورج کا طلوع اور غروب ہونا پورا سال تغیراتِ موسم کی وجہ سے بدلتا رہتا ہے یہ بدلنا کوئی اتفاقی بات نہیں بل کہ یہ نظامِ کائنات کا ایک حصہ ہے ۔
اس طرح تینوں آیات میں تضاد نہیں تطابق ہے ، اللہ تعالی کی بے شمار حکمتیں اور راز چھپے ہوئے ہیں، مشرکوں اور جاہلوں نے مشرق اور مغرب ، شمال مشرق ، شمال مغرب ، جنوبی مشرق اور جنوبی مغرب جیسی مختلف سمتوں میں مختلف دیوتاؤں کو مانا ہے قرآنِ مجید نے رب المشارق اور رب المغارب کہہ کرکے اس غلط اور مہمل عقیدے کی تردید کی ہے جو کہ زیادتیِ ایمان کا باعث ہے۔ اگر کوئی ان آیات کو کج آنکھ سے دیکھے تو اس کا قصور ہے ۔ آیتِ کریمہ اور اس کے مضامین برحق ہیں اور ہر سمت اور ہر جہت کا مالک وہی پروردگارِ برحق تھا ہے اور رہے گا ۔