img
img

سوال : اگر نبی ﷺ “رحمت للعالمین” ہیں تو پھر اُن کے لیے استغفار اور گناہوں کی معافی کا ذکر کیوں آیا؟ کیا یہ دونوں باتیں متضاد نہیں؟

اعتراض :

آیت 1 : وما أرسلناك الا رحمة للعالمين .
ترجمہ : اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے ۔
(سورۂ انبیاء 107)

آیت 2 : ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تاخر (إلى آخره)
ترجمہ : تاکہ اللہ تمہارے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کرے ۔

ان دو آیات کو پیش کر کے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایک آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے رحمت بنا کر بھیجنے کی بات کہی ، تو دوسری آیت میں آپ کے ذنب کو معاف کرنے کی بات کہی ہے ، کہیں واستغفر لذنبك کہہ کر اپنے گناہوں کے استغفار کرنے کو کہا گیا ، یعنی استغفار کا حکم دیا جانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحمت ہونے کے منافی ہے لہذا ان آیات میں تضاد ہے ، جب تضاد ہے تو یہ کلام اللہ نہیں ہوسکتا ۔


جواب :

معترض نے یہاں ٹھوکر کھالی ہے ، اس نے ذنبك سے مراد(معاذ اللہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گناہ سمجھ لیا ہے ، جب کہ خود عبارت گواہ ہے کہ جسے ذنب کہاگیا حقیقتا ذنب بہ معنی گناہ نہیں ۔
اگر کسی کا خیال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیت کی نسبت ہے ، تو ما تقدم سے کیا مراد ہے؟
وحی اترنے سے پہلے اگر مراد ہے، تو یہ بتائیے گناہ کسے کہتے ہیں؟ خدا کے فرمان کی مخالفت کو ، فرمانِ خدا كيسے معلوم ہوگا ؟ وحی سے ۔
تو جب تک وحی نہ اتری تھی تو فرمان کہاں تھا ؟ جب فرمان ہی نہ تھا تو مخالفتِ فرمان کے کیا معنی ؟
اور جب مخالفتِ فرمان ہی نہیں تو گناہ کہاں سے ہوگا؟
جس طرح ما تقدم سے ثابت ہوا کہ حقیقتا ذنب نہیں ، ایسے ہی ما تأخر میں نقدِ وقت ہے ، فرمان کے نازل ہونے کے ابتدا میں جو افعال جائز ہوئے بعد میں فرمان ان کے منع ہونے پر اترا ، انہیں یوں تعبیر کیا گیا ، حالاں کہ ان کا حقیقتا گناہ ہونا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا ۔
ایسے ہی وحی کے نازل ہونے کے بعد رسالت کا ظاہر ہونا بھی ہے جو افعال جائز فرمائے بعد میں ان کی ممانعت اتری ، اسی طریقے سے ان کو ما تأخر کہا کہ وحی بہ تدریج نازل ہوئی نہ کہ دفعتا ۔

اب جب کہ یہ نسبت آپ کی طرف ہے بہ قول معترض کے تو پھر یہ ذنب گناہ ثابت ہی نہ ہو سکا تو پھر اس کی معنویت کیا رہ جاتی ہے ،
ان دونوں آیات میں جہاں لذنبك اور دوسری آیت میں ليغفر لك ہے واضح اشارہ مل رہاہے کہ آپ استغفار کیجیے، مگر ان کے لیے جو اپ سے وابستہ ہو گئے ، اور انہوں نے معصیت میں زندگی گزاری اپنے آپ پر اپنی جانوں پر ظلم کیا ۔
ان آیات سے ہمارا موقف کس حد تک ثابت ہوتا ہے چلیے اسے بھی دیکھ لیتے ہیں۔
سورہ محمد کی آیت میں تو صاف قرینہ موجود ہے کہ خطاب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں ہے ۔

اس کی ابتدا یوں ہے
فاعلم أنه لا اله الا الله واستغفر لذنبك وللمؤمنين والمؤمنات
یہ خطاب تو اس سے ہے جو ابھی لا الہ الا اللہ نہیں جانتا ورنہ جاننے والے کو جاننے کا حکم دینا تحصیلِ حاصل ہے۔ تو معنی یہ ہوئے کہ اے سننے والے جسے ابھی توحید پر یقین نہیں کسی طرح توحید پر یقین لے آ اپنے اور اپنے بھائی مسلمانوں کے لیے معافی مانگ اسی طرح ایک اور واضح آیت سورہ نساء میں موجود ہے جو ہمارے موقف کو اور واضح کرتی ہے وما ارسلنا من رسول الا ليطاع باذن الله ولو أنهم اذ ظلموا انفسهم جاءوك فاستغفر الله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما.
ترجمہ : ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے۔
تو اے حبیب تمہاری بارگاہ میں حاضر ہو جاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو وہ ضرور اللہ کو پاتے کہ وہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔
اس آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں کہ کوئی رسول ایسا نہیں بھیجا گیا جس کی اطاعت کا حکم نہ دیا گیا ہو یعنی رسول کو بھیج کر اس کی اطاعت کا حکم دیا ۔
دوسری بات: کہ یہاں جو ظلم اور زیادتی آپ کے ماننے والوں سے ہوئی اس پہ اللہ نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے لیے استغفار کا حکم دیا جو کہ آیت سے واضح ہے ۔ کیوں کہ غلاموں کی نسبت آقا ہی کی طرف ہوتی ہے، اس لیے انہیں کے گناہوں کی معافی کے لیے آپ کو حکم ہوا کہ آپ ان کے لیے مغفرت طلب کیجیے۔
اب آپ آیت کا ٹکڑا دیکھیے جاءوك فاستغفر الله آپ کی بارگاہ میں آجائیں اور اللہ سے استغفار کریں ، آگے کا حصہ بھی دیکھیے واستغفر لهم الرسول اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کریں ۔
رسول تو معصوم ہوتے ہیں تو استغفار کا حکم کس کے لیے ہوا ؟ مومنین کے لیے ۔
لہذا اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں آیتوں میں تضاد اور اختلاف بال برابر بھی نہیں ہے ۔
بل کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا رحمت ہیں اور آپ کو اپنے ہی وابستگان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کو کہا گیا ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ علیہ السلام کی مبارک دعاؤں میں سے ایک بڑا حصہ ہمیں بھی عطا فرمائے ۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *