سوال : جب قرآن کہتا ہے کہ اللہ نبی کے لیے کافی ہے، تو پھر دوسری جگہ لوگوں کو نبی کی مدد کا حکم کیوں دیا گیا؟ کیا یہ دونوں باتیں آپس میں متضاد نہیں؟ اور کیا یہ قرآن کے تضاد سے خالی ہونے کے دعوے کو جھوٹا ثابت نہیں کرتا؟
اعتراض :
آیت 1 : فإن تولو فقل حسبي الله لا اله الا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظيم .
ترجمہ: اے نبی کہہ دو مجھے اللہ ہی کافی ہے
(سورۂ توبہ 129)
آیت 2 : واذ اخذ الله ميثاق النبيين لما اتيتكم من كتاب وحكمه ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به ولتنصرنه .
ترجمہ: اے لوگو نبی کی مدد کرو
(سورۂ آل عمران 81)
ان ایات کو پیش کرکے یہ اعتراض کیا جارہاہے کہ کبھی اللہ کہتا ہے کہ رسول کے لیے وہی کافی ہے، کبھی کہتا ہے لوگو! رسول کی مدد کرو ۔
جب کہ قرآن کا دعوی ہے کہ قرآن کی کسی بھی آیت میں تضاد نہیں ہے جو کہ غلط ہے میں نے تضاد پیش کردیا ۔
لہذا یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے ۔
جواب :
دونوں آیات کا ترجمہ معترض کی طرف سے پیش کردہ اور سیاق و سباق سے کٹاہوا تھا ۔
لہذا سب سے پہلے ان آیات کریمہ کا پورا ترجمہ دیکھیے:
آیت 1: پس اگر وہ منہ پھیریں تو تم کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں میں نے اسی پر بھروسا کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے ۔
آیت 2 : یاد کرو اس وقت کو جب اللہ نے وعدہ لیا انبیاء سے کہ جو کچھ میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تصدیق کرے اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ۔
آیات کا ترجمہ بہ غور ملاحظہ فرمائیں:
پھر یہ سمجھیں کہ ان آیات میں کہیں بھی کسی بھی قسم کا تعارض نہیں ہے ، کیوں کہ دونوں آیات کے مخاطب الگ الگ ہیں ، پہلی آیت میں اللہ تعالی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہہ رہے ہیں کہ تمھارے لیے اللہ ہی کافی ہے یعنی اوپر سے بات چلتی آرہی ہے منافقین کی کہ اتنے شفیق مہربان تمھاری ہی جنس سے پیغمبر آئے بہ وجہ جنسیت استفادہ اور آسان ہے ” بوئے جنسیت کند جذب صفات ” اس رحمت و شفقت کے بعد بھی اگر وہ آپ کی بات نہ مانیں منہ موڑ لیں دیرینہ عداوت پر قائم رہیں تو کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے ۔
دوسری آیت میں مخاطب انبیاء ہیں ۔ اس میثاق کا ذکر ہے جو اللہ نے ہر نبی سے لیا ہے کہ اگر آپ کے زمانے میں وہ رسول آگئے تو ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا یعنی ان کے ساتھ ہوجانا ، اگر نہ آئے تو اپنے ماننے والوں سے کہہ دینا کیوں کہ اللہ تعالی ہر نبی کے لیے عالمِ ظاہری کے اسباب پیدا کرتے ہیں ، اس کا عہد و پیمان بھی لیتے ہیں اور اسباب کی تلقین بھی کرتے ہیں اور وہی ان کا انتظام بھی کرتے ہیں ، اس لیے کہ وہی کہتا ہے اسباب صرف اور صرف مسبب الاسباب کے پیدا کیے ہوئے ہیں اسی پر ایمان رکھنا اسی کو کافی اور کارساز جاننا ضروری ہے ، اسی چیز کا نام تو ایمان ہے
قرآنِ مجید نے کئی مقامات پر عالمِ ظاہری و غیبی کے پیدا کیے جانے کی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ، اور ہر نبی یہ کہتے رہے ہیں:
حسبنا الله ونعم الوكيل نعم المولى ونعم النصير .
ترجمہ: اللہ ہی ہمارے لیے کافی ہے وہ بہترین مدد کرنے والا ہے ۔
اہل ایمان اور بے ایمانوں کے درمیان یہی آیت حدِ فاصل ہے کہ اہل ایمان اللہ ہی پر بھروسا رکھتے ہیں اور اسے ہی کافی سمجھتے ہیں جب کہ بے ایمان لوگ ظاہری اسباب پر ایمان لاتے ہیں اور مادہ پرستی پر یقین کرتے ہیں ۔ جس کو علامہ اقبال یوں کہتے ہیں:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ۔
لہذا ان دونوں آیات میں کوئی تضاد نہیں دونوں کے مخاطب الگ ہیں دونوں کا مطلب الگ ہے ۔
اللہ ہمیں ہدایت دے آمین

