سوال : اگر اللہ آسمان و زمین کا مالک ہے، تو پھر وہ بندوں سے قرضِ حسن کیوں مانگتا ہے — کیا یہ قرآن کا تضاد نہیں؟
اعتراض :
آیت1 : ولله ملك السماوات والأرض .
ترجمہ: اور اللہ ہی کے لیے ہے زمین و آسمان کی بادشاہت ۔
آیت 2 : من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا .
ترجمہ: ہے کوئی جو اللہ کو قرضِ حسن دے ۔
ان آیات کے متعلق کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ ان میں تضاد ہے اس لیے کہ ایک آیت میں آیا ہے کہ آسمان و زمین کا بادشاہ اللہ ہے ۔ جب کہ دوسری آیت میں اللہ بندوں سے قرض مانگ رہاہے ، کیا کوئی بادشاہ رعایا سے قرض مانگ سکتا ہے ؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں کیوں کہ قرآن کا دعوی ہے کہ اس کی آیات میں تضاد نہیں ہے ۔
جواب :
قرآنِ پاک کی شان یہ ہے کہ یہ فصاحت و بلاغت کے سب سے اونچے درجے پر فائز ہے
اس کا ہر ہر لفظ اپنے اندر متعدد معانی و مفاہیم رکھتا ہے ان معانی کو قرنِ اول سے مفسرین بیان کرتے چلے آرہے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت جاری رہے گا ان شاءاللہ ۔
چلیے سب سے پہلے قرض کے معنی سمجھتے ہیں: قرض کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں یعنی اپنے مال میں سے کچھ کاٹ کر اللہ کے راستے میں دیاجائے ، تو اللہ تعالیٰ اس کا کئی گنا بدلہ عطا فرمائے گا ۔
یہ تو اللہ کا احسان ہے کہ اس نے قرضِ حسن کے طور پر ارشاد فرمایا ورنہ یہ تمام نعمتیں جن میں ہماری زندگی بھی شامل ہے اللہ ہی کی تو دی ہوئی ہے ۔
غالب نے کہا :
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی ۔
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔
علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ : وأقرضوا الله قرضا ” الصدقة والنفقة في سبيل الله ”
قرضِ حسن کا مطلب ہے صدقہ اور جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرے ۔
علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
والقرض الحسن عبارة عن التصدق والإنفاق في سبيل الله مع خلوص نية و صحة قصد واحتساب أجر .
ترجمہ: قرضِ حسن نام ہے ہر اس صدقہ اور خیرات کا جو راہِ خدا میں خلوصِ نیت اور اجر کے یقین کے ساتھ کرے ۔
قرض نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح قرض میں لوٹانا یقینی ہوتا ہے اسی طرح جو اللہ کے لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا اس کا بدلہ ملنا بھی یقینی ہے ۔
اس لیے قرآنِ کریم کو سمجھنے کے لیے اس کے اسلوب سے واقفیت بھی ضروری ہے ۔
اللہ ہمیں ہدایت دے آمین

