امریکی لیکچررسٹیف جونسن کا قبول اسلام ( امریکہ)
امریکی لیکچررسٹیف جونسن کا قبول اسلام
( امریکہ)
سٹیف جونسن امریکہ میں کیتھولک رسم و رواج کے ایک عیسائی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔بچپن میں اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں درختوں کے نیچے بیٹھ کر اللہ کی مخلوقات کے بارے میں غور و فکر کرنا ان کامشغلہ تھا وہ بار بار سوال کرتے کہ اس کائنات کا خالق کون ہے؟
“سٹیف جونسن” نے اپنی عمر کے تقریبا 22 سال اسی عیسائی خاندان کے زیر تربیت گزاری-اس وقت تک اپنے محلے کے اسکول میں پڑھتے رہے اور اپنی جماعت میں سب سے ممتاز رہے ،جب انٹر کی تعلیم حاصل کر لی تو اچانک اس وقت ایک حادثہ رونما ہوا۔ہوا یوں کہ وہ اپنی دادی کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے اپنی گاڑی سے آ رہے تھے کہ ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں سر میں زبردست چوٹ آئی، بدن کا نصف بایاں حصہ شل ہو گیا۔ اور کان سے قوت سماعت جاتی رہی ۔”جونسن” کہتے ہیں اس حادثے کی وجہ سے میں رو پڑا اور نذر مانی کہ بقیہ زندگی اللہ کی خدمت کے لیے وقف کر دوں گا، اگرچہ اس وقت میں عیسائی ہی تھا۔
” سٹیف جونسن “کہتے ہیں اس حادثے کے بعد میں نے اپنی تمام تر توجہات پڑھنے لکھنے میں صرف کر دی اور کھیل کے کسی میدان میں شرکت سے گریز کرنے لگا البتہ میں نے جو نذر مانی تھی وہ مجھے خوب یاد رہی. اس لیے گرجا گھروں میں جا کر وہاں کے پادری سےملاقاتیں کرتا ۔اس لیے کہ پادری ہی میرا علاج کرواتے تھے پھر چندہی دنوں بعد میراداخلہ ایک یونیورسٹی میں ہو گیا جہاں میں نے اپنا موضوع علم کیمیا اور علم النفس کو چُنا ،جو دراصل طب میں داخلہ کی تیاری تھی داخلہ کے پہلے سال میں نے یونیورسٹی میں خوب محنت کی یہاں تک کہ میں اپنی جماعت میں اول رہا ،اس کے بعد میں طب میں محنت کرنے لگا ۔
“سٹیف جونسن” کہتے ہیں میں نےیونیورسٹی میں اپنی تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک علم تشریح کیمیا اور علوم طب کی طرف ،دوسرے فلسفہ کی کتابوں اور گرجا گھر میں عبادت کی طرف اگرچہ اس دوران میں مقامی گرجا گھر میں خدمت انجام دیتا رہا مگر ابھی ان مشغولیات کے چند ہی ایام ہوئے تھے کہ میری توجہات دوسرے ادیان کے ریسرچ کی طرف مائل ہونے لگی اور پڑھائی میں دل نہ لگنے لگا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ اندر سے فطرت مجھے بیدار کر رہی ہے اور حقیقت کی طرف لے جا رہی ہے۔
اچانک اس تبدیلی سے میں کافی پریشان ہواُٹھا اور میں نے ان تفکرات سے آزاد ہونے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا اور آخر کار مجھے اس سے چھٹکارے کے لیے نشہ آور چیزوں اور شراب کا سہارا لینا پڑا تاکہ ان کے ذریعے سے مجھ پر نسیان طاری ہو اور وہ تمام کیفیات ختم ہو جائیں جن سے میں ان دنوں دو چار تھا ،لیکن افسوس میں دوا کے بجائے مزید بیماری کو اختیار کر بیٹھا بالآخر میری زندگی جہنم بن کر رہ گئی اور علم طب حاصل کرنے کی قوت نہ رہ سکی ۔چنانچہ میں نے طب کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور فورًا میں نے گرجا گھر کا رخ کیا تاکہ پادریوں سے ایمان تازہ کر لوں۔
“سٹیف جونسن” کہتے ہیں پادری کی نگرانی میں، میں نے پورے دو سال عیسائی قید خانے میں معلم کی حیثیت سے مامور رہا اور وہاں عیسائیت کا درس دینے لگا ،ساتھ ہی ساتھ فلسفہ اور عیسائی دینیات کی تعلیم بھی جاری رہی پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر عیسائیت موجود ہے اس پر مجھے اطمینان ہو گیا اور اسی دوران مجھے یہ خوشخبری ملی کہ یورپ میں دینیات کے شعبے میں میرا داخلہ ہو گیا چنانچہ میں نے یورپ کا سفر کیا اور وہاں سے ٹورنٹو (جاپان) گیا۔ وہاں میں نے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد”انڈیانا” یونیورسٹی سے تھیالوجی اور فلسفے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا۔
“سٹیف جونسن” کہتے ہیں اسی دوران اچانک میری ملاقات ابوظہبی کے ایک مسلم نوجوان اسماعیل سعید خان سے ہو گئی اور اس سے گفتگو ہوئی، بات چیت چونکہ کھلے ماحول میں ہو رہی تھی اس لیے میں نے اسلام کے بارے میں زیادہ تر باتیں کیں، اس گفتگو کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے ہی دن اس مسلم نوجوان کے ساتھ میں قریب کی ایک مسجد میں چلا گیا اور اس طرح ہم دونوں ساتھ ساتھ مختلف مقامات کی تفریح کرنے لگے، ہم دونوں کے درمیان سچی دوستی ہو گئی تھی۔ اس لیے ایک ہی کمرے میں رہنے لگے اسلام کی طرف میلان کا یہ سب سے پہلا سبب ہے ۔میرا مسلم دوست دعوت و ارشاد کا مبلغ تھا اس لیے طریق دعوت سے پوری طرح واقف تھا اس نے مجھے کبھی بھی اسلام میں داخل ہونے کے لیے نہیں کہا لیکن وہ پوری کوشش کرتا کہ میں بھی ان کے ساتھ نماز ادا کروں اور قرآن کریم کی تلاوت کروں۔ اس دوران مجھے اسلام کے بارے تشفی بخش جواب دیتا اور جتنا سوال کرتا اتنا ہی جواب دیتا۔
“سٹیف جونسن” کہتے ہیں اسماعیل کی ملاقات نے میری زندگی کا رخ کو یکسر بدل دیا روزانہ اسلام کے بارے میں کچھ نہ کچھ وہ بتاتے رہے، میں نے گرجا گھروں اور پادریوں سے اسلام کی جو شبیہ پڑھی تھی بلاشبہ اسلام اس سے منزہ اور پاک ہے۔
پھر میرے دوست نے مجھے احادیث قدسیہ کی ایک کتاب دی اس نے مجھے ایک نئی زندگی کا احساس دلایا اب میرا محبوب مشغلہ اس کتاب کا مطالعہ تھا میں نے محسوس کیا کہ اب میں حقیقی زندگی کی طرف لوٹ رہا ہوں چنانچہ نومبر 1981 میں؛ میں نے اپنا دین، اسلام کو منتخب کر لیا اور میری زبان سے شہادتین جاری ہوئے فالحمدللہ علی ذلک ۔
” سٹیف جونسن “کہتے ہیں کہ اب الحمدللہ میری زندگی میں نشہ آور چیزیں اور شراب نہیں رہی اب بقیہ زندگی کو اللہ اور اس کے رسول کے دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا جیسا کہ میں نے بچپن میں نذر مانی تھی. اللہ نے میری اس تمنا کو پوری کر دیا اور اِس وقت امریکہ میں اسلام کی دعوت میں مصروف ہو ۔
“جونسن” کہتے ہیں ضرورت ہے کہ امریکہ اور یورپ میں اسلام کو اس کی اصل اور حقیقی شکل میں پیش کیا جائے ان شاءاللہ امریکی نوجوان روزانہ اسلام میں داخل ہوں گے- اس لیے کہ ان کے اندر مذہبی ناآسودگی ہے. دراصل امریکہ اور یورپ میں عیسائی مبلغین نے اسلام کی شبیہ بگاڑنے میں پوری قوت صرف کر دی ہے اس لیے کہ ان کو صرف اسلام سے خطرہ ہے۔
آخر میں “سٹیف جونسن” خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں اس وقت میں “انڈیانا” یونیورسٹی میں تاریخ کا لکچرر ہوں ۔طلبہ مجھ سے اور میرے سلوک سے بہت خوش ہیں اور یہ وہ اخلاق ہیں جو مجھے اسلام نے عطا کیے ہیں۔(الفصیل ریاض عدد ٢٣٨ صفحہ ٦٥)
(روشنی کی طرف صفحہ ١٢٨)


Comments are closed