ظلمات سے نور کی طرف ( راہبہ “جورجیٹ فہیم “کا سفر ہدایت)
ظلمات سے نور کی طرف
( راہبہ “جورجیٹ فہیم “کا سفر ہدایت)
مصر کی چالیس سالہ جور جیٹ فہیم عیسائیت میں 16 سال راہبہ بن کر زندگی گزارنے کے بعد مئی 1989 میں جامعہ ازہر شریف کے دارالافتاء میں اپنے اسلام کا باضابطہ اعلان کر کے اپنے لیے” اجلال علی” نیا اسلامی نام تجویزکیا۔
یہ اس عیسائی خاتون کے ایمانی سفر کی داستان ہے جس نے اپنی 16 سالہ زندگی گرجا گھر میں راہبہ بن کر گزاری ۔اسلام قبول کرنے کی بدولت عیسائیوں اور نصرانیوں نے اس کو طرح طرح کی اذیتیں دی مگر اس کے پائے ثبات میں لغزش کے بجائے اسلام کے لیے مزید قدم جمتے چلے گئے۔ اور اس سے مزید وابستگی کی لہر تیز ہوتی چلی گئی۔ اس عیسائی خاتون کے ساتھ اللہ کے فضل و انعام کا اندازہ اس سے ہوگا کہ اس نے خواب میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور خواب ہی میں آپ کی بشارت سے اسلام میں داخل ہوئی۔ اس کی تفصیل آپ ذیل میں ملاحظہ کریں گے۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر اس راہبہ نےاسلام کیوں قبول کیا؟ اور اسلام کو حاصل کرنے کے لیے اتنی اذیتیں کیوں برداشت کیں؟۔
“اجلال علی”اپنے ایمانی سفر کی داستان کو فخر اور غم سے ملے جلے جذ بات میں بیان کرتی ہے۔ میرا عیسائی نام “جور جیٹ فہیم “ہے میں ایک متوسط عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئی. میں نے ابتدائی تعلیم کے ایام ایک نرسنگ ہوم میں گزارے اسی وقت سے میں نے انسانی خدمت کو اپنے لیے لازم کر لیا تھا اس لیےکہ اس میں مجھے عزت نفس کے ساتھ قلب و دماغ میں سکون اور اطمینان کا احساس ہوتا تھا اسی جذبے نے مجھے گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ رکھا۔اسی دوران میں نے راہباؤں کے ساتھ گرجا گھر میں بقیہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا اور تقریبا میں نے اپنی عمر کے 16 سال رہبانیت میں گزاری۔
” اجلال علی” کہتی ہیں کہ گر جا گھر ہی میں میرے اندر داعیہ پیدا ہوا کہ اسلام کے بارے میں کچھ جانکاری حاصل کروں اور یہ جذبہ اس لیے پیدا ہوا کہ کچھ دنوں سے میں عیسائی عقیدے سے مشکوک ہو گئی تھی ۔اس لیے کہ ان کے عقیدے میں بیک وقت تین معبود ہیں جبکہ ان کے ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ معبود صرف “عیسی مسیح “ہیں۔ الوہیت ہی میں جب ان کے درمیان اختلاف کا علم ہوا کہ ایک فرقہ دوسرے فرقے سے بالکل الگ نظریہ رکھتا ہے حتٰی کہ ایک دوسرے کے درمیان شادی بیاہ کا معاملہ تک نہیں ہوتا تو مجھے یقین ہو گیا کہ بنیادی عقیدے میں اختلاف اس کے باطل ہونے کی دلیل ہے۔ یہاں سے میرے اندر تشکیک پیدا ہونا شروع ہوئی۔
“اجلال علی” کہتی ہیں اس کے بعد میں نے تدریجی طور پر گرجا گھر میں جا کر صلیب کو پوجنا بند کر دیا۔ راہبہ سہیلیوں نے میرے اندر اس انقلاب اور بدلاؤ کو دیکھ کر عیسائی سربراہوں سے میری شکایت کی جس کے نتیجے میں میرے اوپر سختیوں اور اذیتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بالآخر ان اذیتوں کی وجہ سے میرے معدے کے اندر کینسر ہو گیا اور میں ہسپتال میں داخل ہو گئی۔
خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت :
“اجلال علی” کہتی ہیں( اپنی داستان کے اس مرحلے تک پہنچی تو ان کی انکھوں میں خوشی اور مسرت کی چمک اور چہرے میں اطمینان اور سکون کے آثار نمایا تھے) ڈاکٹرو ں نے میرا علاج شروع کر دیا اور مجھے خواب آور گولیاں دے کر بے ہوش کر دیا اسی بے ہوشی اور غنودگی کے عالم میں،میں کیا دیکھتی ہوں کہ نظروں کے سامنے سراپا انسان کی شکل میں ایک نور ہے وہ مجھ سے مخاطب ہے” میں محمد رسول اللہ ہوں۔ اللہ نے تمہارے لیے ہدایت کا راستہ کھول دیا ہے۔ تمہارے طویل امتحان اور آزمائش کے بعد”
ان جملوں کے بعد انہوں نے میرے کانوں پر تھپکیاں دیں اس کے بعد میں فورًا اپنے تخت پر اٹھ کھڑی ہوئ اس وقت میرے جسم میں روئیا ہی روئیا تھیں اسی عالم میں، میں بلند آواز سے أشہد أن لا الہ اإلا اللہ وأشهدأن محمد رسول اللہ کہنے لگی، میں کلمۂ پاک کو 10 مرتبہ بلکہ 100 مرتبہ زبان سے دہراتی رہی اور مدہوش کن آواز میں اس کا ورد کرتی رہی اس آواز کو سن کر ہسپتال کے ڈاکٹر اور مریض جمع ہو گئے مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے پھر اچانک میں نے اپنی نظروں کے سامنے اللہ کے گھر کعبہ شریف کو دیکھا میں اس سے قریب ہو گئی اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم کا ایک پیالہ دیا میں نے آج تک ایسا پانی نہیں پیا تھا اس کی چاشنی اور مٹھاس کو زبان وہ حلق میں آج تک محسوس کر رہی ہوں۔
“اجلال علی” نہایت اشتیاق کے ساتھ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسم گرامی لے کر کہتی ہیں اس کے بعد فورًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی ۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نماز اور کیفیت نماز سے واقف نہیں ہوں. میں نماز کس طرح پڑھوں؟ آپ نے ارشاد فرمایا نماز میں سورہ فاتحہ،سورہ اخلاص اور سورہ فتح پڑھو چنانچہ اس کے بعد میں نے ان سورتوں کو یاد کیا اورآج بھی اپنی نمازوں میں ان سورتوں کو پڑھتی ہوں خدا کا مجھ پر بے حد کرم اور احسان ہے کہ خواب میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین مرتبہ زیارت ہوئی۔ فالحمدللہ علی ذلک ۔
اس واقعے کے بعد جب میرے پاس ڈاکٹر آئے اور انہوں نے جب یہ تفصیلات سنی تو انہوں نے کہا یہ سب خواب آور گولیوں کی وجہ سے ہوا ہے اور آپریشن ناکام ہو گیا لیکن ہسپتال کے ایک مسلمان خادمہ جو میری خدمت کے لیے معمور تھی اس نے حقیقت کا اندازہ لگا لیا اس نے خاموشی سے مجھے صاف ستھرے کپڑے دیے اور اپنے گھر کا پتہ دے کر ہسپتال سے فورا نکلنے کو کہہ کر چلی گئی ۔” اجلال علی” کہتی ہیں میں فورًا ہسپتال سے نکل کر اس کے گھر کی طرف روانہ ہوئی ،اس وقت میں شدید تکلیف میں مبتلا تھی آپریشن کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جان نکل جائے گی لیکن اس کے باوجود میرا قلب نہایت مطمئن اور مسرور تھا اور بحفاظت میں خادمہ کے گھر پہنچ گئی وہ صرف ایک کمرے میں اپنے چھ بچوں کے ساتھ رہتی تھی،شوہر وفات پا چکے تھے ہسپتال میں ان کی معمولی تنخواہ تھی اس کے باوجود روزانہ میرے لیےکھانے پینے اور دوائیاں مہیا کرتی تھی جب تک میں اس کے گھر رہی خیر اور ہمدردی ہی پائی ۔
اتنا کہتے ہوئے “اجلال علی” شدت غم سے رو پڑی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنے اس کرم فرما محسنہ اور مددگار خادمہ کے لیے دعا کرنے لگی جس کے قلب کو اللہ نے میرے لیے، میرے ایمان اور اسلام کے لیے مسخر کر دیا تھا “فجزاها الله تعالى أحسن الجزاء في الدنيا والآخرة”
پادریوں اور راہباؤں کی طرف سے اذیتیں:
“اجلال علی” اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں میری محسنہ اور خدمت گار بہن نے مجھے نصیحت کی کہ مرض سے افاقہ کے بعد جامعہ ازہر کہ دارالافتاء میں جا کر باضابطہ اپنے اسلام کا اعلان کر دوں چنانچہ مرض سے افاقہ کے بعد جب میں جامعہ ازہر کے وزارۃ الامن میں پہنچی تو میں نے دیکھا کہ وہاں پہلے ہی سے پادریوں اور راہباؤں کا ایک گروہ موجود تھا گویا کہ وہ میرے انتظار میں تھے وہاں پہنچتے ہی ان دشمنوں نے کہا یا تو اسلام چھوڑ کر عیسائیت میں آجاؤاور مامون ہو جاؤ اور اس کے بدلے میں دنیا کا عیش و عشرت کے سامان سے خوب فائدہ اٹھاؤیاپھر ہماری طرف سے لرزہ خیر اذیتوں کا مقابلہ کرو اس کے جواب میں ،میں نے کہا اسلام ہی دین حق ہے اس سے میں اب منحرف نہیں ہو سکتی ۔روشنی کے بعد تاریخی کو اختیار کرنا ویسے بھی عقل کے خلاف ہے البتہ میں تم لوگوں کے لیے دعا کرتی ہوں اللہ تعالی تمہیں بھی اس حق کو قبول کرنے کی توفیق دے ۔اتنا سنتے ہی
ان میں سے ایک اٹھ کر میرے چہرے پر زور دار طماچہ مارا اور چہرے پر تھوک دیا۔
میں سمجھ گئی کہ دشمنوں کے ارادے ناپاک ہیں اس لیے فوراً میں وہاں سے بھاگ نکلی۔ راستے میں میں نے دیکھا کہ ایک تیزرفتارکارمیرے تعاقب میں سڑکوں پر رینگ رہی ہے سامنے راہباؤں کی ایک بھیڑ مجھے اچک لینے کی کوشش کر رہی ہےکہ اچانک وہ کار بھی میرے قریب آگئی اور ایک لمحہ میں مجھے کار سے اتار کر ایک قید خانےمیں لے گئے اور وہاں وہ اذیتیں دی کہ ان کو تحریر و بیان میں نہیں لا سکتی ۔
ان کے چرچ قید خانے میں کئی روز گزرنے کے بعد مجھے ایک نہایت محفوظ بند اور خطرناک دیوار کے اندر محصور کر دیا گیا اور دوبارہ اذیتوں کا سلسلہ شروع کر دیا مختصر یہ کہ میری گردن کو لوہے کی زنجیر سے باندھ کر مجھے چھت سے لٹکا دیا گیا اس اذیت ناک صورتحال میں نہ میں کھڑی ہو سکتی تھی نہ بیٹھ سکتی تھی. “اجلال علی” اشکبار ہو کر کہتی ہے میں نے اس لمحہ صرف اللہ کو یاد کیا اور اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کر کے میں نے قرآن کریم کی آیت “ومن يتق الله يجعل له مخرجا ويرزقه من حيث لا يحتسب “کے حوالے سے اپنے رب کو پکار کرکہا؛ کہاں مفر ہےیارب؟
حمد و ثنا بیان کرتی ہوں اس ذات کی جس ،کےقدرت میں دنیا کا ہر ذرہ ہے۔ اس نے میری آواز سن لی اور کچھ دیر کے لیے پادریوں نے مجھے زنجیر سے آزاد کر دیا مگر تہ خانے میں محصورہی رکھا۔ میں ایک صدر دروازے کی طرف متوجہ ہوئی تومیں کیا دیکھتی ہوں کہ ہر دروازے کھلے ہیں اور میں یکے بعد دیگرے کمروں سے نکلتے ہوئے عیسائی قید خانے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی اور کسی نے مجھے بھاگتے ہوئے نہیں دیکھا۔
“اجلال علی” ایمان کی راہوں میں سنسنی خیز داستان سفر کو جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں جب میں ان کی قید سے باہر نکلی تو رات کی تاریکی بھیانک ہو چکی تھی میں اس تاریکی میں لق و دق جنگل میں تنے تنہا بےسمت سفر کر رہی تھی لیکن دل مطمئن تھا کہ منزل ضرور ملے گی “ويهديه من يشاء إلى صراط مستقیم” صبح ہوتے ہی ایک بدو آبادی میں پہنچی، میری داستان سن کر ان بدؤں نے مجھے اکرام بخشا اور میری پشت پناہی کی میرے تئیں ان کے اعزاز و اکرام کو دیکھ کر مجھے ڈھارس بندھی تو میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے دوبارہ قاہرہ اس خادمہ کے پاس پہنچا دیں اور میں دوبارہ قاہرہ پہنچ گئی۔
“اجلال علی” گویا قاہرہ دوبارہ پہنچنے پر مطمئن ہو گئی وہ کہتی ہیں قاہرہ اپنے محسنہ کے گھر پہنچ کر کئی ہفتے گزارے اس دوران ایک صاحب خیر نے جن کو اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا تھا میری روداد سن کر مجھ پر بہت کرم کیا اس نے ایک روزدارالافتاء جامعہ ازہر شریف میں جا کر باضابطہ اسلام کے اعلان کرنے کو کہا چنانچہ میں ان کے ساتھ جامعہ ازہر پہنچ گئی۔
وہ صاحب خیر میرے لیے نیا اسلامی نام “فاطمۃ الزہراء “پسند کرتے تھے لیکن جب میں مفتی ازہر کے روبرو بیٹھی تھی تاکہ اعلان اسلام کے فارم پر کرو ں، رجسٹر کے اوراق میرے سامنے مفتی ازہر کھول رہے تھے کہ ایک صفحہ پر میری نگاہ رک گئی جس پرنہایت جلی حروف میں “اللہ جل جلالہ “لکھا ہوا تھا بس میرے دل میں القاءہوا کہ میں اپنا نام “جل جلالہ” کے مادے سے اجلال رکھو ں اور علی دوسرا نام ہے اس طرح میرا پورا نام “اجلال علی” فارم میں پڑ گیا۔
جب میں دارالافتاءسے قاہرہ واپس لوٹ رہی تھی تو راستے میں اس صاحب خیر اور محسن نے مجھے نکاح کا پیغام دیا یہ کہہ کر کہ عیسائیوں کی طرف سے اذیتوں کا مقابلہ دونوں مل کر کریں گے چونکہ اس کے اخلاق و کردار اور اسلامی اخوت و ہمدردی سے متاثر تھی اس لیے میں نے اس کے پیغام کو قبول کر لیا اور ہم دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔
اللہ کی طرف سے آزمائشیں ہیں۔
“اجلال علی” اتنا کہتے کہتے شدت سے رو پڑی اور اپنے سابق شوہر اور اپنے دو بچوں کو یاد کرنے لگی کہتی ہیں” میرے سابق شوہر مجھ سے بے حد تعلق اور میرا خیال رکھتے تھے یقینا میری زندگی کے لیے ایک ڈھال اور زینت بھی تھے اور دونوں بچے میرے لیے سکون کے باعث تھے لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ وہ سب مجھے تنہا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ہوا یوں کہ وہ سب ایک کار میں اسکندر یہ سے واپس قاہرہ لوٹ رہے تھے کہ راستے میں خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ سب جائے حادثہ پر ہی فوت ہو گئے اور میں زندگی کی پرخطر راہوں میں تنہا رہ گئی۔
“اجلال علی” ابتلا اور ازمائش سے بھرے اپنے ماضی کے حوالے سے کہتی ہیں “اس حادثے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا. بار بار ذہن و دماغ میں بات آتی ہے کہ کہیں تلاش حق کےسفرسےہمت نہ ہارجاؤں لیکن میں نے اس حادثے کے بعد اپنی سارے معاملات اللہ پر چھوڑ دیے اور خدائی فیصلے کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ابھی یہ زخم بھرے نہیں تھے کہ میرے سابق شوہر کی پہلی بیوی کے لڑکوں نے مجھے ان کی میراث سے محروم کرنے کی سازش شروع کر دی ایک روز ان لڑکوں نے مجھے کہا کہ یا تو عیسائیت میں دوبارہ مامون ہو کر لوٹ جاؤ یا میراث سے محروم ہو جاؤ بلکہ ایک روز طے شدہ پلان کے تحت وہ مجھے ایک پہاڑ کے اوپر سے نیچے دھکیلنے کے لیے زبردستی میرا اغوا کیا مگر میں ان کے قبضے سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئی اور اپنے ایک عیسائی بھائ کے گھر میں پناہ لی وہ میرا خیال رکھتا تھا۔
“اجلال علی “کہتی ہیں خدا ایسی مصیبت کسی کو نہ دے .وہی اپنا حقیقی بھائی جو میری مصیبتوں میں کام آتا تھا اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے تیور بدل گئے اس نے بھی مجھے عیسائیت کی طرف لوٹ جانے پر اصرار کیا اس کی بات نہ ماننے پر قتل کی دھمکی دی میں نے اپنے لیے قتل کو پسند کیا بنسبت اس کے کہ میں دوبارہ کفر و ضلالت کے دلدل میں جاگروں۔
چنانچہ میرے بھائی نے ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق دریا میں ڈالنے کی کوشش کی، اس نےکشتی سے نیچے دریا میں ڈالنے کا ارادہ ہی کیا تھاکہ اچانک اس کے ہاتھ اور پاؤں پوری طرح شل ہو گئے اور ان میں حرکت تک کی طاقت نہیں رہی۔اس نے فوراً مجھ سے معافی مانگی اور عہد کیا کہ دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا یہ ماجرہ کشتی کے نا خدا دیکھ رہا تھا اس نے میری داستان سن کر شہادتین کا اقرار کر لیا اور ایک روز کے بعد وہ اپنے پورے گھر والوں کے ساتھ میرے پاس آیا تاکہ وہ سب اسلام قبول کرلیں اور ایسا ہی ہوا۔ فالعزۃ لله ولرسوله وللمؤمنين۔
“اجلال علی” نے اپنی گفتگو میں اس پہلو کو زور دیتے ہوئے کہا ان دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرتے ہوئے مجھے دکھ اور تکلیف کا احساس نہیں ہوا اسلام کی وجہ سے جس قدر مجھے اذیتیں دیں۔ میرے اندر اسلام مزید راسخ ہوتا چلا گیا جب زندگی کے ایک موڑ پر قدرےسکون کا احساس ہوا تو ایک مرتبہ پھر قاہرہ واپس آگئی اور اپنے سابق مکان میں ہم دونوں قیام پذیر ہو گئے لیکن ایک فلیٹ تھا جس میں تقریبا 15 مکان تھے سب کے سب عیسائیوں کے مکان تھے اسی کے ایک حصے میں میرے سابق شوہر کے شر پسند لڑکے بھی رہتے تھے اس لیے ان کی طرف سے ہم دونوں کو خطرہ لاحق رہتا چنانچہ میں نے وزارۃ الامن میں جا کر اپنی حفاظت کے لوازمات کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں پولیس کے ایک حفاظتی دستہ نے اس پوری عمارت کو اپنی حراست میں نہیں لیا ۔حراست کے دوران ان میں سے ایک عیسائی پولیس نے میری داستان سفر سنی تو مختصر یہ کہ اس نے بھی اسلام قبول کر لیا۔اس کا اسلام قبول کرناتھا کہ اس کی بہن نے بھی اس سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ بہرحال پولیس کی نگرانی کے باوجود وہ لڑکے روزانہ مجھے پریشان کرتے رہے۔اللہ جزائے خیر دے ہمارے ایک مسلمان پڑوسی کو وہ میرے اس معاملے کو کورٹ تک لے گئے اور ان کو ان کی مذموم حرکتوں سے آگاہ کیا۔ آج بھی ہمارا یہ معاملہ کورٹ میں زیر بحث ہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ جس طرح سے مجھے ظلمات اور پریشانیوں کے دلدل سے نکالا ہے اس معاملے میں بھی ضرور مدد کرے گا۔ اور اللہ سے مایو س تو کافر ہی ہوتے ہیں۔
مفتی ازہر شریف کے اس سوال پر کہ؛ کیاآپ کے اس طویل داستان سفر کو سن کر اور اس سے متاثر ہو کر کسی نے اسلام قبول کیا؟ اس کے جواب میں” اجلال علی” کہتی ہے میری زندگی کے پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد جن افراد نے اسلام قبول کیا اس کی ایک جھلک آپ کوتو مل چکی ہے لیکن آخری وہ خوش نصیب جس کے اسلام کے لیے میں سبب بنی کچھ ماہ پہلے واقعہ ہےکہ ایک روز میں سڑک کے کنارے پیدل چل رہی تھی کیا اچانک میں بے ہوش ہو کر گر پڑی جب ہوش آیا تومیں اپنے آپ کوقاہرہ کے ایک بڑے ہسپتال میں ڈاکٹر انجیکشن اور دوائیوں سے گھرا پایا ۔ڈاکٹر نے میرا علاج کرتے ہوئے بے ہوشی اور اس کی وجہ سے چہرے پر زخم کی وجہ سے دریافت کی تو میں نے پورا قصہ بتایا ۔یہ سن کر اس کا چہرہ متغیر ہو گیا اور میرے ہاتھوں میں چبھا ہوا انجکشن چھوڑ کر، اپنے آپ کچھ بولتا ہواکمرے سے باہر چلا گیا ۔میں تکلیف سے چیخ پڑی جب تک دوسرے ڈاکٹر آتے اس وقت تک میرے ہاتھ میں کافی ورم ہو چکا تھا معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر مسیحی تھا اور اس کا نام جورج تھا۔
” ا جلال علی” کہتی ہیں کچھ ہی دن گزرے تھے وہ مسیحی ڈاکٹر ایک روز میرے گھر آیا اور اسلام قبول کرنے کی ظاہرکی اور اصرار کیا کہ میں اس کے ساتھ جامعہ ازہر جاؤں ،الحمدللہ اب وہ مسلمان ہو کراسلامی زندگی گزار رہا ہے اس کا نیا اسلامی نام “محمد عبداللہ” ہے۔
مسلمان ہونے کے بعد وہ نمائندہ ڈاکٹروں کے پاس گیا اور بوسنیا, ہرزے,گوونیا کے مظلوم مسلمان مرد و عورت اور بچوں کے علاج کے لیے سفر کی اجازت مانگی ۔؛بحمدللہ اس کو اجازت مل گئی اور آج بھی وہ مظلوم مسلمانوں کے علاج اور خدمت میں مصروف ہیں۔
قاہرہ کے علمی حلقوں میں شرکت:
آخر میں اسلام اور اسلامی علوم کے حصول کے لیے اپنی سرگرمی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں الحمدللہ قاہرہ کی جامع مسجد کے تمام علمی اور دینی حلقوں میں شرکت کا موقع ملا اور استفادہ کیا۔ ڈاکٹر عمر عبدالکافی، شیخ متولی الشعراوی، شیخ غزالی اور دکتورہ عبلہ الکحلاوی کے اسلامی اور دینی درس میں حاضری کا موقع ملا اور خوب استفادہ بھی کیا ۔اس کے علاوہ قاہرہ کے دیگر علمی حلقوں میں بھی جانے کا اتفاق ہوتا رہا ۔فطری طور پر تعلیم کے سلسلے میں حریص واقع ہوئی ہوں اس لیے اس کے جستجو میں مجھے بہت لطف ملتا ہے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے دوران میں نے اسلام کا مطالعہ کیا تو یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اسلام اپنے اندر ہر دور میں ترقی کا پہلو رکھتا ہے۔ مذکورہ بالا شخصیتوں کے درس نے میری اسلامی معلومات میں گراں قدر اضافہ کیا لیکن ایک طرف اسلامی تعلیمات کو دیکھتی ہوں دوسری طرف آج کے مسلمانوں کے طرز عمل پر نگاہ ڈالتی ہوں تو بڑی مایوسی اور تکلیف ہوتی ہے۔ مسلمان اسلامی ثقافت اور تہذیب کے بجائے مغرب اور عیسائیت و یہودیت سے متاثر ہیں ۔جہاں تک میں نے اپنی مسیحی زندگی میں دیکھا ہے عیسائیوں کو سب سے زیادہ دشمنی اسلام اور مسلمانوں سےہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو خالص اسلامی شعار کا حامی بنا لے آمین ۔
آخری تمنا:
“اجلال علی” اپنی بصیرت افروز داستان کو اپنی آخری تمنا میں ختم کرتی ہیں ” میری آخری تمنا یہی ہے کہ مجھ سے میرا رب راضی ہو جائے۔ اس کا رسول خوش ہو جائے اس لیے کہ میرے نام کا بھی یہی مقتضی ہے دنیا میں بڑی خواہش یہ ہے کہ جس طرح ماضی میں میری طرف اللہ تعالی نے مختلف اصحاب خیر کو متوجہ کیا اسی طرح کوئی صاحب خیر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک کے خرچ کو برداشت کرے ۔میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جا کر مسجد حرام کی خدمت کرنا چاہتی ہو ں یا مدینہ منورہ مسجد نبوی میں خادمہ بن کر زندگی گزاروں( اتنا کہتے ہوئے اجلال علی آبدیدہ ہو گئیں) اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں بقیہ زندگی گزاروں۔ و آقا جنہوں نے میرے ہاتھ پکڑ کے دین حنیف اور اسلام کی طرف متوجہ کیا .میں روضۂ اطہر تک پہنچ کر ان کو سلام کہنا چاہتے ہوں. اور دربار رسالت میں حاضری دے کر کہنا چاہتی ہوں !کہ آقا !میں اللہ کی وحدانیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو لے کر خود حاضر ہوئی ہوں۔ ہزارہا صلوۃ و سلام ہو آقامکی مدنی پر۔ تو ہے کوئی صاحب خیر جو میری زندگی کی آخری تمنا کو پوری کر دے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک پہنچنے میں میری مدد کرے؟
فجزاهم اللّٰه تعالى أحسن الجزاء
(العالم الاسلامي مكه مكرمه)
7اکتوبر 1994ھ
(روشنی کی طرف صفحہ/ ٢٠)


Comments are closed