img
img

اسلام دشمن سے اسلام کا داعی (مشہور یہودی صحافی مارک ڈیوڈ شیلفرکا قبولِ اسلام)

اسلام دشمن سے اسلام کا داعی

(مشہور یہودی صحافی مارک ڈیوڈ شیلفرکا قبولِ اسلام)

امریکہ
“مارک ڈیوڈشیلفر” نیو یارک امریکہ کے ایک یہودی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ بچپن سے ہی وہ اسلام کا شدید مخالف اور دشمن رہے ہیں۔ جو دراصل ان کے یہودی والدین کا اثر تھا جب کیوبا کاانقلاب وجود میں آیا اس وقت مارک نے امریکہ سے (مغرب) طنجہ کا سفر کیا. جہاں اسلامی اور مغربی دونوں طرح کی تہذیبیں تھیں۔ شروع میں انہوں نے اپنے قیام کے لیے اس علاقے کا انتخاب کیا جو مغربیت زدہ تھا مگر وہاں مطمئن نہ ہو سکے اورمسلمانوں کی آبادی میں منتقل ہو گئے۔
“مارک ڈیوڈ ” کہتے ہیں طنجہ میں قیام کے دوران میرے معاملات مسلمانوں کے ساتھ رہے اس لیے روزانہ اسلام کے بارے میں نئی نئی معلومات کا اضافہ ہوتا رہا۔ البتہ مجھے برابر یہ خوف دامن گیر رہا کہ مسلمانوں میں وہ چیزیں نہ پائی جائیں جو مجھے وحشت میں ڈال دے اور جو یہودیت میں بھی رائج ہیں اور ہوا یہی عید الاضحی کے موقع پر میں نے مسلمانوں کو جانور ذبح کر کے غرباء اور مساکین کے درمیان گوشت تقسیم کرتے دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہودی پادری مجھ سے درست کہا کرتے تھے کہ مسلمان خونریز ہیں،اور اس معبود کی عبادت کرتے ہیں جس کو ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم نے چنا تھا۔
” مارک ڈیوڈ” کہتے ہیں جب میں طنجہ سے واپس اپنے وطن “نیویارک” پہنچا اس وقت تک مجھے اسلام کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہو چکی تھیں۔ اسلام اور یہودیت کا جب میں نے موازنہ اور تقابلی مطالعہ کیا تو اسلام کے ہر شعبۂ حیات میں مجھے اطمینان و سکون ملا۔ اسلام میں دوسرے بھائی کے لیے مودت اور اخوت ہے جس سے یہودیت خالی ہے ۔اسلام میں بڑوں کے لیے ادب اور چھوٹوں کے لیے پیار ہے جبکہ مغرب میں اس کا تصور تک نہیں ہے۔
“مارک ڈیوڈ” کہتے ہیں اس وقت میں بےحدمتاثر ہوا جب میں نے کسی جنازے کو دیکھا کہ پروانہ وار مسلمان آرہے ہیں اور نماز جنازہ میں شرکت کر رہے ہیں۔ اور مسجد کی اذان سن کر ہزاروں میل سے لوگ آکر نماز میں شریک ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اس اجتماعیت نے مجھے اسلام سے قریب کیا۔
“مارک ڈیوڈ “کہتے ہیں جتنے دنوں میں طنجہ میں رہا وہاں مسلمانوں کے درمیان بھائی کی طرح زندگی گزاری ۔جس میں بھرپور اپنائیت تھی۔ اجنبیت تھی مگر اس میں بے پناہ دلنوازی تھی ۔یہ چیز مجھے امریکہ میں کبھی نہیں ملی یہاں ہر ایک کی دنیا الگ ہے۔ حتی کہ پڑوسی بھی ایک دوسرے سے بے خبر اور بے نیاز ہیں۔
“مارک ڈیوڈ” کہتے ہیں ابھی میں اسی کشمکش میں تھا کہ ایک رات مجھے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کو ملا سورہ اخلاص کا ترجمہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس سورت نے کم الفاظ میں اسلامی عقیدے کے جوہر کو بیان کر دیا ہے۔ کہ معبود صرف اللہ کی ایک ذات ہے۔ اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں ہے۔ نہ اس کا کوئی لڑکا ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
دراصل وہ رات ہماری نئی زندگی کے آغاز کی رات تھی۔ میری زندگی میں زبردست انقلاب کی رات۔ چنانچہ فوراً ہی میں تلاش کرتے ہوئے ایک قریبی مسجد تک پہنچا۔ وہاں مسجد میں ؛میں نے ایک مسلمان سے اشتیاق سے دریافت کیا کہ اسلام میں داخل ہونے کے کیا طریقے ہیں؟ انہوں نے فوراً مجھے شہادتین کا اقرار کرایا اور اس طرح میں اسلام میں داخل ہو گیا۔ اس لمحہ مجھے احساس ہوا کہ آج ہی میں نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے۔ اور اپنے لیے میں نے نیا اسلامی نام “سلیمان عبداللہ شیلفر” منتخب کر لیا ہے۔
“سلیمان عبداللہ” کہتے ہیں جیسے ہی میں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا فوراً عربی زبان سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش شروع کر دی تاکہ اللہ کے کلام کو سمجھ سکوں اور اس کو اپنی زندگی میں برت سکوں۔ چنانچہ ان دنوں 1966 میں قاہرہ میں اخبار “احبیشان “میں ملازمت کر رہا تھا مدیر نے مجھے ازہر شریف میں پڑھنے کی اجازت دے دی مگر اخباری کام کرتے ہوئے پڑھنا ایک مشکل کام تھا اس لیے فوراً 1967 کی جنگ کے دوران میں القدس چلا گیا اور وہاں مسجد اقصی کے جوار میں رہ کر مختلف امریکی اخبارات اور ایمبیسی نشریہ کے لیے آرٹیکل لکھتا رہا۔ اور فرانس کے مختلف اخبارات کے لیے بھی لکھتا رہا ۔اسی دوران میں نے ایک کتاب سقوط القدس لکھی جس میں صہیونیوں کی قدس میں در اندازی کی تاریخ ہے اس کتاب کو”دارالنہارالصنا عیہ” نے اپنے مکتبہ سے شائع کیا۔
“سلیمان شیلفر ” کہتے ہیں خدا کا شکر و احسان ہے جو 1983 سے آج تک میں قاہرہ ہی میں مقیم ہوں یہاں اپنا گھر بنوا لیا ہے اور یہاں امریکہ یونیورسٹی کے شعبہ نشریات میں پڑھا رہا ہوں اور یہیں میں نے ایک مسلم نیک خاتون سے شادی کر لی ہے اور الحمدللہ خوشگوار زندگی گزار رہا ہوں۔
“آج سلیمان شیلفر” کاشمار ممتاز دا عئ اسلام میں ہو رہا ہے جو امریکیوں میں لگاتار اسلام کے تبلیغ و اشاعت کا کام انجام دے رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہر انسان کے اندر فطرت سلیمہ موجود ہے اسلام قبول کرنے کے لیے میرے نزدیک کوئی شرط اور قید نہیں ہے صرف وہ اپنی فطرت کی آواز پر کان بھرے ان شاءاللہ ہمیں امید ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن ضرور اسلام کے حقانیت کو تسلیم کر لے گا۔
(الفصیل، ریاض، عدد ٢٢٥ صفحہ ٦٥)
(روشنی کی طرف صفحہ/٧٠)

Comments are closed