img
img

ایک عیسائی “حلمی محمد فہمی عبدہ”کی تلاش حق

نور ہدایت
(ایک عیسائی “حلمی محمد فہمی عبدہ”کی تلاش حق)
(سو ہاج)

” موجودہ تورات اور اناجیل محرف ہیں “یہ اس مسیحی نوجوان کا موضوع ہے جس نے اسلام اور عیسائیت کے تقابلی مطالعے کے بعد اسلام قبول کیا ہے اور جس کی وجہ سے مصر کے ایوان میں شور بپا ہے اللہ نے اس کے قلب کو منور کیا اور فطرت سلیمہ کے راستے پر گامزن کر دیا اسلام قبول کرنے کے بعد اس مسیحی کی نوجوان نے “العالم الاسلامی” مکہ مکرمہ کو اپنے ایمانی سفر کی طویل سنسنی خیز اور عیسائیوں کو چیلنج کرنے والی داستان پر مشتمل ایک تفصیلی انٹرویو دیا ہے۔
سب سے پہلے میسحی نوجوان نے اپنی بصیرت افروز گفتگو میں ثابت کیا ہے کہ اس وقت یہودی اور نصرانی جس تورات اور انجیل کے بات کرتے ہیں وہ محرف اور ایک دوسرے سے مختلف و معارض ہیں اس کے علاوہ اسلام کے حقانیت توریت اور انجیل میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی بشارت عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں اور یہودیوں کی مخلوط سرگرمیوں کا علمی تحقیقی اور تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ اہم موضوعات ہیں جن کو اپنی گفتگو کا مرکز بنایا ہے اگرچہ ان موضوعات پر آج سے پہلے علماء اسلام نے بہت کچھ لکھا ہے اور مخالفین کی تردید کی ہے لیکن آج آپ اس مسیحی نوجوان سے اسلام کی حقانیت سنیں گے جس کی نشوونما مسیحی خاندان میں ہوئی ۔تاآنکہ اس پر اللہ نے اپنا فضل فرمایا اور اسلام کی روشنی عطا فرمائی۔”الله يهدي من يشاء الى صراط مستقيم”.
میں گواہی دیتا ہوں کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے ۔اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی زندگی عطا کرتا ہے ۔اور اسی کے قبضے میں موت ہے ۔وہ ہر چیز پر قادر ہے اسی کے پاس سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ بے شک سب سے زیادہ سچا کلام اللہ کا کلام ہے۔ اور بہترین طریقہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔
“میں اللہ کے اس قول پر ایمان لاتا ہوں جس نے اپنے کلام پاک میں ارشاد فرمایا” اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی معتبر ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے برحق اور آخر ی رسول مانتے ہوئے ان کے فرمان کے صداقت پر ایمان لاتا ہوں جنہوں نے فرمایا ہر انسان کو پیدائش فطرت اسلام پر ہوتی ہے یہودی نصرانی اور مجوسی اس کے والدین بنا دیتے ہیں”
سیدنا ابو القاسم میرےقلب کی روشنی، آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں’ اے اللہ کے رسول میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ نے اللہ کے پیغام کو امت تک پہنچا دیا۔ امانت کو ادا کر دیا۔ تاریکی کو مٹا دیا۔ امت سے مصیبتوں کو دور کر دیا۔ اور اللہ کے راستے میں قربانیاں پیش کیں۔ ہزاروں صلاۃ و سلام ہو آقا مکی مدنی پر آپ کی پاک بیویوں اور آپ کے جانثار ساتھیوں پر”

پیدائش

” حلمی محمد فہمی عبدہ”عیسائیت کی ظلمات اور تاریکیوں سے اسلام کی روشنی کی طرف خوبصورت اور ولولہ انگیز داستانِ سفر کا آغاز کرتے ہوئے کہتے ہیں 1960 میں صوبہ “سوہاج” کے ایک دیہات” کوم “میں میری پیدائش ہوئی۔میرا خاندان روایتی طور پر عیسائی رسم و رواج کا پابند تھا 1966 تک میں اپنے گاؤں کے ایک عیسائی مدرسے میں ابتدائی تعلیم حاصل کرتا رہا مدرسہ اور گھر کے درمیان ایک گرجا گھر بھی تھا جس میں تمام بچے روزانہ پابندی سے جایا کرتے مگر میں ان کے ساتھ اور اکیلے کبھی گرجا گھر میں داخل نہیں ہوا چو نکہ میں نے اپنے والدین اور بہنوں کو بھی کبھی کسی گر جا گھر میں جاتے نہیں دیکھا بس روایتی طور پر ہمارا خاندان مسیحی چلا آ رہا تھا ۔
ابتدائی تعلیم کے دوران میں نے دیکھا کہ ہر اتوار کو چھٹی ہوتی ہے اور مدرسے کے تمام بچے گرجا گھر جاتے ہیں۔ ان لڑکوں سے ہی میں نے بسملہ ثلاثہ یعنی بسم اللاب والابن والروح القدس سنا اور سیکھ بھی لیا۔جس کو ہر عیسائی کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے پڑھتا ہے اسکول میں ہمیں بتایا جاتا کہ ایک اللہ میں یہ تینوں داخل ہیں اور تینوں مل کر ہی ہمارا معبود ہے اس نظریہ اور فلسفے کو سمجھانے کے لیے پادری آگ اور سورج کی مثالیں دیتے کہ آگ کی طرف دیکھو اس میں (١) آگ کے شعلے (٢)روشنی (٣) گرمی؛ تین چیزیں موجود ہیں اور یہ تینوں مل کر آگ ہے اسی طرح سورج کی طرف دیکھو! اس میں (١) سورج کا ٹکیہ (٢)شعاء (٣) گرمی اور تمازت یہ تینوں مل کر ایک سورج ہے اسی طرح اب ،ابن،اور روح القدس تینوں مل کر ایک اللہ ہے اور وہی ہم لوگوں کا معبودہے۔أعاذنا الله منه.
“حلمي محمدفهمي عبدہ “کہتے ہیں محض اللہ کے فضل و کرم اور اس کی مدد سے ہی اس عمر میں ان پادریوں سے سوال اور ان پر جرح کرتا کہ آگ کے اندر دھواں اور راکھ دو مزید چیزیں ہیں یہ سن کر پادری میری طرف حیرت اور استعجاب کی نظروں سے دیکھتے مگر مجھے اس سلسلے میں کبھی بھی تشفی بخش جواب نہ دے سکے میں نے پادریوں کو یہ بھی تعلیم دیتے دیکھا کہ کھاتے پیتے سوتے جاگتے تجارت، زراعت، شادی ،بیاہ ہر کام کے شروع میں صلیب کا نام لیتے ہیں اور اس کو ضرور پوجھتے ہیں میں نے عیسائیوں کے نزدیک دین کی اہمیت کو اس سے زیادہ محسوس نہیں کیا جس قدر ایک کسان کو زمین اور جانوروں کی ضرورت پڑتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے عیسائیوں کو شدید جاہلی تعصب میں مبتلا پایا۔
میں ایک متوسط عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا، اکثر میں گھر کے افراد سے سوال کرتا کہ آخر اب،ابن اور روح القدس تینوں مل کر ایک کیسے ہیں؟ آج تک مجھے اس کا تشفی بخش جواب نہیں مل سکا اور میری حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب عیسائیوں کے بنیادی عقیدے کا علم ہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلا ؛اللہ کے بیٹے ہیں اور وہ سولی پر چڑھائے گئے ہیں اور ان کا خون صلیب پر موجود ہے جو دراصل حضرت آدم علیہ السلام کی خطاء کا کفارہ ہے۔

فطری سوالات کے گھیرے میں

“حلمی محمد فہمی عبدہ” کہتے ہیں ۔ابتدائی مدرسے میں میرے ہم سبق چند مسلمان دوست تھے ان کو میں نے درسگاہ اور درسگاہ سے باہر مختلف اسلامی آداب میں پایا ۔جو عیسائیوں کی یہاں میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔ایک روز انہی مسلم احباب کے ساتھ میں نے قرآن کریم کی سورہ اخلاص کی تلاوت سنی اور پڑھی اس نے میرے قلب و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں نے قلب میں پھیلی گمراہی کو محسوس کیا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ معبود صرف ایک ہے اور وہ بے نیاز ہے نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے ۔تو مجھے تسلی اور تشفی ہو گئی اس صاف و شفاف عقیدۂ توحید کو پا کر اسلام کی تئیں مزید معلومات کے لیے مضطرب ہو اٹھا۔
یہاں تک میں نے ابتدائی درجات مکمل کر لیے اور درجہ اعدادیہ کے لیے “سو ہاج” کے ایک قدیم ادارے میں درخواست ڈال دی چنانچہ 1973 میں میرا داخلہ اعدادیہ میں ہو گیا۔ گھر سے 13 کلومیٹر دور واقع اس مدرسے میں ہاسٹل کا انتظام تھا اس میں؛ مسلمان طالب علم بھی قیام پذیر تھے۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہاسٹل میں مقیم ہو گیا۔
یہاں آکر میں قدرے مطمئن ہو گیا تھا اب روزانہ مسلم دوستوں سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتا اور عیسائیوں کے عقیدے کے بارے میں میں نے منظم مطالعہ شروع کیا سب سے پہلے اپنے عیسائی ساتھیوں سے موجودہ اناجیل کے بارے میں بحث شروع کر دی۔
مطالعہ کے دوران اناجیل اربعہ (انجیل متی،انجیل مرقس، انجیل لوقا ،انجیل یوحنا) میں سے سب سے زیادہ حقیقت کے قریب انجیل یوحنا کو پایا مگر تحریف سے وہ بھی پاک نہیں جیسا کہ خود انجیل کے مزمور 56 عدد 4 میں ہے.
“میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تمام غلط اور باطل نظریات کے ذریعے بدل دیا گیاہے” انجیل یوحنااصحاح 20 عدد 23میں ہے ۔
اور بہت سی نشانیاں جو حضرت عیسی مسیح نے اپنے تلامذہ کے سامنے ظاہر کیے وہ اس کتاب (موجودہ انجیل)میں نہیں لکھا گیا ہے .
اس پس منظر میں بار بار میرے ذہن و دماغ میں سوال ابھرتا کہ آخر کار ان حقائق کو موجودہ اناجیل کے صفحات میں کیوں نہیں لکھا گیا اس لیے موجودہ اناجیل یقینا محرف ہیں اور اس کی نشاندہی خود انجیل اعمال الرسول اصحاح عدد 11 میں کی گئی ۔
“اور کہا گیا ہے! اے لوگو تمہیں کیا ہو گیا آسمان کی طرف دیکھ رہے ہو حضرت عیسی علیہ السلام تو آسمان کی طرف اٹھا لیے گئے ہیں۔ اسی طرح آسمان سے ایک روز تشریف لائیں گے۔
یہ اسلامی نظریہ اور عقیدہ کی واضح تصدیق ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ ہی آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا ہے ان کو سولی نہیں دی گئی ہے جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔
“حلمی محمد فہمی عبدہ”کہتے ہیں 1973 سے 1967 تک میں درجہ اعدادیہ کا طالب علم رہا ۔اس دوران میرا قیام شہر” سوہاج” ہی میں رہا۔ سوہاج کے شہروں میں واقع گرجا گھروں میں کبھی جانے کا اتفاق نہیں ہوا بلکہ میں نے قصدا ادھر کا رخ نہیں کیا البتہ اس دوران بار بار میرے ذہن میں نماز اور روزے کے بارے میں طرح طرح کے سوالات ابھرتے اور یہ اس وجہ سے تھا کہ نماز اور روزہ کی پابندی کرتے ہوئے میں نے بارہا اپنے مسلم دوستوں کو دیکھا تھا۔
عیسائیوں کے عقیدے میں دن رات میں سات نمازیں ہیں اگرچہ اکثر عیسائی صرف اتوار کے دن اور عید کے دن نماز پڑھتے ہیں اور اکثر تو نماز سے واقف ہی نہیں، نمازوں کے اقات اس طرح ہیں(١) صبح کی نماز(٢) تیسری گھنٹے کی نماز (اس میں وضاحت نہیں ملتی کہ اس سے کیا مراد ہے؟دن یا رات) (٣)دن میں چھٹے گھنٹے کی نماز(٤) نویں گھنٹے کی نماز(٥) غروب کے وقت کی نماز (٦)گیارہویں گھنٹے کی نماز(٧) آدھی رات کی نماز ان مذکورہ ساتوں نمازوں میں موجودہ اناجیل اور مزامیر کے الگ الگ مخصوص حصے ہیں جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر نماز کی کیفیت دوسری نماز سے مختلف ہے۔

پادریوں سے چند سوالات

عیسائی پادریوں سے میں بار بار سوال کرتا کہ آخر کس دن ان نمازوں کو مشروع کیا ہے؟ اور ان کی تفصیلات کس نے بتائی ہیں؟ ان کے اوقات کس نےمتعین کیے ہیں ؟اور نمازوں کے مکلف صرف وہی کیوں ہیں جو اناجیل ارباب کو اچھی طرح قرار کر سکیں ؟اور جو ناواقف ہو ان پر نماز فرض کیوں نہیں ؟
اور جب میں نے پوچھا کہ جو شخص نماز پڑھتا ہے اور جو نہیں پڑھتا ان دونوں کے درمیان فرق کیا ہے؟ پڑھنے والوں کے لیے ثواب نہ پڑھنے والوں پر عذاب ہے؟ اور کتاب مقدس میں وہ کون سی آیات ہیں جن سے ان نمازوں کا ثبوت ملتا ہے؟ یہ سن کر پادری حیران رہ گئے اور مجھے آج تک مطمئن نہ کر سکے۔
اسی وقت سے میں نے پادریوں کو مخاطب کر کے کہا اس کے برخلاف اسلامی نماز کی تمام تفصیلات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں ۔سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کی سورتوں میں سے آیات کی قرأت، تکبیر ،تسبیح ،تحلیل اور درود پر مشتمل نماز کی پوری صفت و کیفیت اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے اس میں کسی طرح کی تحریف کی گنجائش نہیں۔
نیز اسلامی عقیدے میں نماز کی پابندی کرنے والوں کے لیے آخرت کی کامیابی ثواب ،جنت کی بشارت اور نماز ترک کرنے والوں پر اللہ کے غضب اور جہنم کی وعید سنائی گئی ہے نماز کےمنکر کو اصطلاح شریعت میں کافر اور مرتد کہا جاتا ہے اسی وجہ سے اسلام کے ارکان خمسہ میں سے دوسرا رکن نماز ہے۔ اسلام میں نمازی اور غیر نمازی کے درمیان واضح فرق ہے جبکہ تمہارے لیے اس کا تصور تک نہیں ت۔مہارے لیے صلیب کی پوجاہی اصل عبادت ہے تو دراصل تمہارا دین وہ ہے جس پر تمہارا نفس راضی ہو۔

میری زندگی کا فیصلہ کن مرحلہ

“حلمی محمد فہمی عبدہ” کہتے ہیں 1977 عیسوی میرا آخری تعلیمی سال تھا اور اسی سال طویل بحث و مباحثہ اور جستجو کے بعد اللہ نے میرا سینہ کھول دیا .میں اس لمحے کو یاد کرتا ہوں تو سر سجدۂ شکر کے لیے بارگاہ رب العزت میں جھک جاتا ہے اور اللہ کے اس فرمان کو بار بار زبان دہراتی ہے:
سو جس کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت کرے تو کھول دیتا ہے اس کے سینے کو واسطے قبول کرنے کے اسلام کے۔ اور جس کو چاہتا ہے کہ گمراہ کر ے کر دیتا ہے اس کے سینے کو تنگ بے نہایت تنگ ۔گویا وہ زور سے چڑھتا ہے آسمان پر۔ اسی طرح ڈالے گا اللہ عذاب کو ایمان نہ لانے والوں پر (سورہ انعام آیت نمبر 120)
اور میں یہ نہیں بتا سکتا کہ جب میں نے اسلام کے پہلے رکن” اشہد ان لا الہ الا اللہ ان محمد رسول اللہ” کا زبان سے اقرار کیا تو مجھے کتنی خوشی ہوئی اور کس قدر اطمینان اور سکون ملا اس کلمے کے اقرار کے بعد کاش میں پہلے ہی اس حقیقت سے آشنا ہو چکا ہوتا.
مجھے اسلام کے لیے اپنے آپ کو ڈھالتے دیر نہیں لگی اور میں پابندی سے فرائض کو ادا کرنے لگا مگر ابھی اسلام قبول کیے ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ مجھ پر مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن ایک عیسائی طالب علم نے مجھے شہر کی جامع “مسجد القطیب “میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ لیا اور اس کو اپنی طرف سے مزید نمک مرچ لگا کر میرے والدین اور بہنوں کو بتا دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے والدین نے مسلم دوستوں سے ملاقات ،ان کے ساتھ رہنے پر پابندی لگا دی اور مجھے اپنی ایک خالہ کے ہاں سخت نگرانی میں منتقل کر دیا جو میرے لیے ایک قید خانے سے کم نہیں تھا۔
“حلمی محمد فہمی عبدہ”کہتے ہیں شدہ شدہ یہ خبر” سوہاج” کے بڑے پادری تک پہنچ گئی اور ایک روز زور زبردستی میرے والدین مجھے اس بڑے پادری تک لے گئے جب میں پادری کے پاس پہنچا تو مصافحہ کے لیےہاتھ بڑھا دیا اور سلام کیا وہاں موجود بہت سارے عیسائیوں اور پادریوں کے خلافِ توقع میرا یہ طرز تھا اس لیے کہ عیسائیوں میں طریقہ ہے کہ جب کوئی پادری کا سامنا کرتا ہے تو اس کے سامنے فوراً جھک جاتا ہے اس کے ہاتھوں اور چہروں کو چومتا اور کہتا ہے “نہا رک سعید یا ابانا”اے بڑے باپ آپ کا دن مبارک گزرے لیکن میں نے اس طرح کی کوئی غیر اسلامی حرکت نہیں کی اس سے وہاں موجود تمام عیسائی حیران ہو گئے اور مجھے نفرت اور حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگے۔

بڑے پادری نے مجھ سے کیا کہا؟

مجھ سے میرے والدین بہنوں اور دیگر متعصب عیسائیوں کی موجودگی میں بڑے پادری نے مخاطب ہو کر کہا اے نوجوان !سچ سچ بتا تمہیں مال و دولت یا کسی اور چیز کی ضرورت ہے؟ جو تمہارے والدین نے اب تک پرانا کیا ہو. آخر تم کس چیز کے لالچ میں بددین ہو گئے؟ اور سنو !اگر آئندہ میں نے سن لیا کہ تم مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہو تو میں تمہیں ذبح کر دوں گا اور ایسی جگہ دفن کروں گا کہ کالے کوے کو اس کی خبر نہیں مل سکے گی. اور یاد رکھو بقیہ تعلیمی ایام 1977 سے 1980 تک تم مسلمان لڑکوں کے ساتھ نہیں گزارو گے. بلکہ تم “عیسائی اسٹوڈینٹس یونین” کے تحت رہو گے یہ کہہ کر پادری نے حقارت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور میری طرف سے کسی جواب کا انتظار کیےبغیر مجھے پادری روم سے جانے کی اجازت دے دی۔ میں نے پادری کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا۔
“حلمی محمد فہمی عبدہ”کہتے ہیں آخر پادریوں نے مجھے مسلمان کے ہاسٹل میں رہنے سے کیوں روکا؟ صرف اس لیے کہ میں ان کی سخت ترین نگرانی میں رہوں اور آئندہ میں نماز کے لیے باہر نہ جا سکوں حتیٰ کہ میرے اساتذہ ( عیسائی) نے مجھ پر سخت اور کڑی نگرانی شروع کر دی اور مجھے پابند کر دیا کہ میں ہاسٹل میں تمام عیسائی لڑکوں کے ساتھ نویں گھنٹے کی نماز میں شریک ہوں ور نہ سخت اذیتوں کے لیے تیارہوجاؤں۔ شروع میں طلباء اگرچہ میرے احوال سے ناواقف تھے ۔لیکن اسا تذہ پر میری حقیقت حال واضح تھی یہی وجہ ہے کہ میرے پاس تنہائی میں آتے اور کہتے اے میرے بھائی حلمی! تم ہم لوگوں کے ساتھ خوش ہو ؟کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ہے؟ تمہیں روپے یا کسی اور چیز کی ضرورت تو نہیں ہے؟ اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی اور تم نے ہم سے نہیں بتایا تو ہم لوگ تم سے ناراض ہو جائیں گے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ میں نے ان لوگوں کے ساتھ اخلاق ک،ردار اور حسن معاملات کے ساتھ وقت گزارا۔ اور کیوں نہیں کرتا جبکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں بہتر وہ ہے جن کے اخلاق اچھے ہوں۔
“علمی محمد عبدہ” بڑے فخر اور مسرت سے کہتے ہیں خدا کا فضل ہے کہ ابھی ہاسٹل میں مجھے ایک سال بھی نہیں گزرے تھے کہ میں دوبارہ سو ہاج شہر کی جامع مسجد میں بغیر کسی پرواہ اور خوف کی نماز ادا کرنے چلا گیا لیکن اتنا افسوس ضرور ہے کہ پانچوں نمازوں کے لیے مسجد نہیں جا پاتا اور آخر کار وہ دن آگیا جب میں نے اپنا تعلیمی سفر پورا کر لیا اور 1980ء 1981ءمیں ڈپلومہ کی سند حاصل کر لی اور اس کے فوراً بعد میں نے اپنا ایڈمیشن فوج میں کروا لیا ۔یہ کوئی دو سال کا کورس تھا اس دوران میں الحمدللہ نماز کے پابندی کرتا رہا اگرچہ میرے تعاقب میں فوج میں بھی دشمن موجود تھے ۔
“حلمی محمد فہمی عبدہ “دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میرے والدین اور میرے گھر والوں نے محسوس کر لیا کہ دن بدن اسلام کے لیے میرے پاؤں جمتے جا رہے ہیں تو نہایت غصے میں ایک مرتبہ مجھ سے کہنے لگے کاش تم ایک لڑکی ہوتے اور تمہارے ساتھ زنا کا عمل کیا جاتا ، یہ ہمیں قبول تھا بنسبت اس کے کہ تم نے اسلام قبول کر لی ۔اور تم نے ہمارے سر کو شرم سے جھکا دیا۔ فضیحت اور عار میں مبتلا کر دیا ۔اور دنیا کے سامنے ہماری ناک کٹا دی۔ صرف اس لیے کہ تم نے اپنے آباو اجداد کے مسیحی دین کو چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا۔
کاش میرے والدین اس طرح کہنے کی بجائے وہ میرے سینے میں پتھر کی چٹان رکھ دیتے اور میں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح احد احد کرتا۔ اس وقت بے اختیار میرے منہ سے یہ اشعار نکل پڑے-
اے اللہ تیری محبت میر ے خون اور ہستی میں سمائی ہے
دنیا کی گمراہیوں میں ہوں اور تو ہی میرا مددگار ہے
خدایا! تو ہی میرا خالق ہے تو ہی میرا وکیل ہے
اے اللہ! تو ہی میرے تمام امور کے لیے کافی ہے

نئی زندگی کا آغاز

جنوری 1984 کو میں “سوہاج” سے واپس گھر لوٹ آیا تاکہ بقیہ زندگی اسلام کے مطابق گزاروں اور اس سفر کی تکمیل کروں جس کا میں نے آغاز کیا تھا اور فطرت کی آواز پر لبیک کہوں جو مجھے ہوش سنبھالنے کے بعد ہی سننے کو ملی تھی چونکہ “سوہاج “میں رہ کر مجھے آزادی حاصل نہیں تھی اس لیے میں نے عراق کا سفر کیا اور وہاں معمار کی حیثیت سے ایک کمپنی میں کام کرنے لگا ۔عراق میں مجھے اچھے مسلم دوست مل گئے وہاں مطمئن زندگی گزر رہی تھی کہ اچانک میرے ایک بہن کا تار آیا پھر میں فورًا اپنے وطن “سوہاج “واپس لوٹ آؤں اور ایئر فورس کے تقرری نامہ حاصل کرلوں چنانچہ میں فوراً گھر آگیا لیکن وطن واپس آنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ صرف گھر بلانے کا بہانہ تھا۔
” حلمی محمد فہمی عبدہ “کہتے ہیں کہ میرے گھر والوں کو اب تک یقین نہیں تھا کہ میں پورے طور پر اسلام میں داخل ہو گیا ہوں اس لیے ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ فورًا چچا زاد مسیحی بہن سے میری شادی کر دی جائے تاکہ وہ لوگ مطمئن ہو جائیں اور میری مسیحیت پر مہر لگ جائے لیکن افسوس صد افسوس ان کی تدبیر پر۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جس قلب نے اپنے اندر اللہ اس کے رسول کو سمو لیا ہو اور جس نے ایمان کی مٹھاس چکھ لی ہو دوبارہ ضلالت کی طرف لوٹ جائے اگرچہ اس کو لوہے کی زنجیروں سے جکڑ دیا جائے ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا ہرگز نہیں۔ اے اللہ! تمہارے ہی لیے تعریف اور شکر ہے میں نے اللہ کو رب مان لیا ا،سلام کو اپنے لیے دین اور محمد رسول اللہ کو اللہ کا پیغمبر۔
مگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے اور نہ معلوم یہ سب کیسے ہو گیا کہ 1986 میں میری شادی اپنی چچازاد عیسائی بہن سے کر دی گئی یہ شادی صرف چار سالوں تک کے لیے ہی برقرار رہ سکی۔ چار سال کی ازدواجی زندگی میں میری دو لڑکے ہوئے اور مجھے فورًا کہا گیا کہ دونوں لڑکوں کو لے کر گر جا گھر جاؤ ں اور وہاں پادریوں کے درمیان عمل تغطیس یعنی عیسائی بنانے والا عمل کر راؤں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو نومولود مسلمان ہو جائے گا۔
مجھے اس وقت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی صداقت کا احساس ہوا کہ” ہر مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہےعیسائی، یہودی اور مجوسی اس کے والدین بنا دیتے ہیں” تو بھلا میں اس عظیم گناہ کا ارتکاب کیوں کرتا مجھے معلوم تھا کہ تغطیس کا عمل سراسر کفروشرک ہے ۔میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اب تک میں تغطیس سے محفوظ رہا چونکہ میری والدہ نے مجھے بتایا کہ ولادت کے بعد بھی میں اس لعنت سے محفوظ رہا ہے ۔وذلك من فضل الله ۔
“حلمي محمد فهمي عبد”ه کہتے ہیں ایک عیسائی لڑکی سے شادی پر میں راضی اس لیے ہو گیا کہ اس وقت میرا شعور پختہ نہیں ہوا تھا والدین اور کنبہ کا خوف دامنگیر تھا لیکن اب تو میں ایک آزاد ،عاقل و بالغ انسان ہوں مجھے پورا حق ہے کہ حق کا اعلان کروں اور دل کی گہرائیوں میں موجزن جذبات کا اظہار کر دوں ان لوگوں کے سامنے اقرار و اعلان کر دوں کہ میں اس دین و مذہب سے بری ہوں جو اسلام کے خلاف ہے۔
میں نے پادری سے چیلنج کیا کہ تم تو کہتے ہو کہ جس نے عمل تغطیس نہیں کیا جنت میں نہیں جائے گا تو حضرت ابراہیم ،حضرت اسحاق ،حضرت یعقوب اور حضرت موسی علیہ السلام اور تمام انبیاء کرام کے بارے میں کیا کہتے ہو جنت میں ہیں یا جہنم میں ؟اور یقینا تمہارا عقیدہ ہے کہ وہ جنت میں ہے تو آخر بغیر عمل تغطیس کے جنت میں کیسے داخل ہو گئے؟ اس کا تمہارے پاس کیا جواب ہے؟

اسلام کا باضابطہ اعلان

20 ستمبر 1990 کو شہر ناصر “سواج “کے “مکتبۃ التوثیق “میں میں نے اسلام کی تیئں دیرینہ جذبات کا اظہار ایک مجمع عام میں کر دیا اس وقت میں نے نہ کوئی خوف محسوس کیا اور نہ ڈر۔ میں نے وقتی مصلحت یا کسی دنیوی غرض اور کسی کے دباؤ میں آ کر اسلام قبول نہیں کیا بلکہ میں نے اپنی فطرت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اللہ کی رضا اپنی آخرت کو سنوارنے اور اہل و عیال اور خاندان کی ہدایت کے لیے دعا کرتے ہوئے زمرۂ اسلام میں داخل ہوا اور اس کے لیے میں نے اپنی ہرمحبوب چیز کو چھوڑ دیا چونکہ اللہ تعالی کو بندے سے یہی مطلوب ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے” اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی تو یقینا اس کو اللہ اور اس کے رسول ملیں گے اور اگر کسی نے؛ کسی دنیوی غرض یا کسی عورت سے نکاح کے ارادے سے ہجرت کیا تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی۔
“حلمی محمد فہمی عبدہ “کہتے ہیں میں نے اپنے والدین بیوی اور بچوں کو چھوڑ دیا اگرچہ میری خواہش اور تمنا تھی کہ بیوی اور بچے میرے ساتھ رہیں تاکہ اللہ انہیں بھی ہدایت نصیب فرمائے مگر میری بیوی نے خود مجھ سے جدائی اختیار کر لی اس لیے کہ عیسائیوں نے میرے بارے میں اخباروں کے ذریعے افواہ پھیلا دی تھی کہ میں نے اسلام 10 ہزار پاونڈ اور ایک مکان کے بدلے میں قبول کیا ہے۔
میں ان لوگوں سے سوال کرتا ہوں کہ میرے اسلام قبول کرنے سے اسلام کو کیا فائدہ ملا؟ کیا میں دنیا میں پہلا فرد ہوں جس نے اسلام قبول کیا ہے؟ یہی نہیں بلکہ میرے اسلام قبول کرنے کی خبر پورے شہر میں پھیلنے کے دس دن بعد ہی میرے پاس میرے والدین، بہن، بہنوئی اور بڑا لڑکا آیا اور سب نے بیگ زبان کہا تم اپنی مرضی سے لکھ کر ہمیں دو کہ” میں پاگل ہو گیا ہوں “اور اس کی ایک سند بنا لوں آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ روشنی کے بعد کسی کو ضلالت پسند نہیں ۔اللہ سے دعا ہے کہ حالت ایمان ہی میں دنیا سے لے جائے اورآخرت میں صالحین اور مومنین کے زمرے میں جگہ نصیب فرمائے امین۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ بچوں سے جدائیگی کے چھ ماہ بعد 10 مارچ 1991 کو میں نے عدالت سے درخواست کی کہ کم از کم میرے بچے ہمارے حوالے کر دیے جائیں اس سے پہلے کہ عیسائیت کی مسموم فضا میں ان کی نشونما ہو اور ان کے عقیدے کے اندر فساد آئے میرے پاس آجائیں چنانچہ عدالت نے میری درخواست منظور کر لی اور بچوں کو میرے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر دیا اس وقت میرے بڑے لڑکے کی عمر تین سال اور چھوٹے لڑکے کی عمر صرف 14 ماہ تھے، مجھے یقین تھا کہ بچوں کے ساتھ بیوی بھی ضرور میرے ساتھ آجائے گی اور ایک دن اسلام کے لیے نرم بھی ہو جائے گی لیکن اس وقت میری حیرت کے انتہا نہ رہی جب ان دونوں چھوٹے بچوں کے لیے بھی اس کی ممتانہ جاگی اور کسی حال میں بھی میرے ساتھ رہنے پر آمادہ نہ ہوئی درحقیقت اسلام کے خلاف عیسائیت کے دشمنی کی ایک بدترین مثال ہے کہ اس نے ممتا کے آگے اسلام دشمنی کو ترجیح دی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ماں کے قد موں کی تلے جنت ہے۔
“حلمی محمد فہمی عبدہ “کہتے ہیں .ابھی میں بچوں کی پرورش اور تربیت کے بارے میں فکر مند ہی تھا کہ اللہ نے میری زندگی میں ایک مسلمان دیندار عورت کو شریک حیات بنا کر داخل کر دیا اور زندگی کے مصائب کاسامنا کرنے کے لیے بہترین ساتھی دے دیا وہ بچوں کو الفت و محبت کے علاوہ اسلامی اخلاق کردار سے مزین کر رہی ہے ۔بےشک اللہ نے سابقہ بیوی سے بہتر بیوی ،رضاعی بہنوں سے بہتر بہن اور جس ماں نے مجھے دودھ پلایا ان سے زیادہ مشفق ماں اور والدین کے گھر سے زیادہ پرسکون اور اچھا گھر مجھے عطا فرمایا اس کے لیے پروردگار کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے ۔فلله الحمد والشكر.
(العالم الاسلامی مکۃ المکرمۃ3.10 .17اکتوبر 1994ء)
( روشنی کی طرف صفحہ/36)

Comments are closed