عیسائیت کا علمبردار ،اسلام کا سپاہی
عیسائیت کا علمبردار ،اسلام کا سپاہی
(مشہور پادری آرتھر فلپائن)
عیسائی پادریوں کی عالمی تنظیم کے سربراہ ہ آرتھر نے 20 اپریل 1983 ء کو اسلام قبول کر کے داعئ اسلام کی حیثیت سے عالم اسلام میں اپنی شناخت بنا کر دنیائے عیسائیت کو حیرت زدہ کر دیا۔
انسان کو ایمان کی دولت مل جائے یہ اس کے لیے سب سے بڑی سعادت ہے ۔اس انسان کو تو خدا کا شکر بجا لانا چاہیے جس نے ایک مدت تک اللہ اور اس کے دین کی مخالفت ،کفر و ضلالت کی حمایت، اور ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کر چکا ہو اور پھر وحدہ لا شریک نے ایمان کی روشنی عطا فرمائی ہو ۔
فلپائن کے “آرتھر” انہی خوش نصیب لوگوں میں ہیں جنہوں نے زندگی کا ایک طویل حصہ اسلام کی مخالفت میں گزارا۔ اور عمر کے اخیر حصے میں اللہ نے انہیں ایمان کی روشنی عطا فرمائی۔ آرتھر دنیائے عیسائیت کے ایک نہایت ممتاز ترین فرد ہیں۔ 1974 میں باتلکر یک یونیورسٹی جوہانسبرگ انگلینڈ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بڑے بڑے گرجا گھروں میں پادری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ایشیا کے مختلف ممالک میں عیسائیت کی مسلسل تبلیغ کے دوران وہ ہمیشہ عیسائیوں کی قیادت کرتے رہے ۔عالمی پادریوں کی تنظیم کے ایک مدت تک صدر رہے۔ ایشیا کے پادریوں کے درمیان اتفاق پیدا کرنے والے ایک تنظیم کے بانی ہیں۔ 1975ء میں قسیس اشہر (M.O.P.Y) کے امتحان میں انہوں نے امتیازی درجہ حاصل کیا .اور 1978 ءمیں(M.Y) ” منصر عام” کے امتحان میں بھی ممتاز رہے.
عیسائیت میں ان اہم ترین مناصب میں رہ کر اسلام کے خلاف کام کرنے کے بعد اللہ نے ان کے دل کو ایمان کے لیے کھول دیا اور صراط مستقیم کی طرف گامزن کر دیا اور نہ صرف یہ کہ انہوں نے اسلام قبول کیا بلکہ داعئ اسلام کی حیثیت سے عالم اسلام میں اپنی شناخت بنا کر پوری دنیائے عیسائیت کو حیرت زدہ کر دیا۔
اس وقت “آرتھر” فلپائن اور یوروپ میں نئے اسلام قبول کرنے والوں کے استقبال میں مصروف ہیں اور” جمعية المسلمين المؤلفة قلوبهم بجنوب الفلبين” تنظیم کی سربراہی کر رہے ہیں۔
20 اپریل 1983ء کو وہ مسلمان ہوئے اور اپنے عیسائی نام “آرتھر” کو بدل کر نیا اسلامی نام” خالد دیلو سانتوس” کو پسند کر لیا. اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد ہی وہ اسلام کے اشاعت میں مصروف ہو گئے مذکورہ تنظیم کے ذریعے 15 سال کی مدت میں جنوبی فلپائن میں نئے مسلمان بھائیوں کا گراں قدر اضافہ ہوا اور آج بھی وہ اپنی اس سرگرمی میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
” آرتھر “کہتے ہیں” 1982ء میں جب فلپائن لوٹ کرآیااس وقت میں ایشیائی گرجا گھروں پر مامور تھا اور فلپائن اس لیے بلایا گیا تاکہ وہاں مزید کلیساؤں کی بنیاد ڈالوں یہ میری زندگی کا پہلا حادثہ تھا کہ شہر “الیجا” میں چند مسلمان بھائیوں سے ملاقات ہو گئی۔ اور ان کے ساتھ میل جول بڑھ گیا میں نے ان سے مل جول اس لیے بڑھائی تھی تاکہ ان سے اسلامی افکار و خیالات کو لوں۔ اور ان کو اپنے عقیدے میں ملا کر اس کو تحریف کر کے اپنے انداز میں پیش کروں .اس طرح مسلمان شک میں مبتلا ہو جائیں گے اور میرے لیے عیسائیت کی اشاعت آسان ہو جائے گی۔
لیکن انسان کے ارادوں پر اللہ کا ارادہ حاوی ہے۔ اللہ کو کچھ اور ہی کرنا تھا چنانچہ اس علاقے میں میری ملاقات ایک مسلمان بھائی سے ہو گئی جنہوں نے پہلی مرتبہ مجھ سے میرے عقیدے اور مذہب کے بارے میں سوال کیا اور میں نے ان سے ان کے دین کے بارے میں سوال کیا اس کے جواب میں انہوں نے کہا میں آپ کو چند کتابیں دوں گا آپ کے سوالات کے جوابات ان میں مل جائیں گے”
“آرتھر “کہتے ہیں یہ اس دور کی بات ہے جب میں مسلمانوں کو وحشی اور سفاک قوم سمجھتا تھا ان کے بارے میں یہ تصور تھا کہ تہذیب و تمدن اور ثقافت سے کوسوں دور ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جس نے دس عیسائیوں کو قتل کر دیا جنت الفردوس میں اعلی مقام کا مستحق ہوگا ۔اس وجہ سے بچپن میں میری والدہ سڑکوں پر جانے سے روکتی تھی کہ میرا کوئی مسلمان قتل نہ کر دے۔
ظاہر ہے ان عقائد کا حامل عیسائی اسلام سے اچانک اتنا قریب کیوں کر ہو جائے گا لیکن بھلا ہو اس مسلمان دوست کا کہ انہوں نے مجھے دو ایسے شخص کی کتابیں دی جو پہلے عیسائی پادری تھے اور اللہ نے ان دونوں کو اسلام کی دولت سے نوازا تھا ۔پہلی کتاب محمد بکتھول کی “قرآن کریم کا ترجمہ” اور دوسری کتاب “محمد صلی اللہ علیہ وسلم کتاب مقدس” میں پروفیسر عبدالاحد داؤد کی۔ جو بڑے پادریوں کے سربراہ رہ چکے ہیں. اللہ نے ان کو ایمان کی توفیق دی اور اسلام قبول کرنے کے بعد مذکورہ کتاب تالیف فرمائی۔
” آرتھر” کہتے ہیں. انہوں نے مجھے دونوں کتاب اس شرط کے ساتھ دی کہ ترجمہ کلام پاک بغیر غسل کے نہ پڑھوں .جو ہمارے لیے نہایت انوکھی بات تھی۔ چنانچہ ایک روز میں دفتر جانے سے پہلے اس کی تلاوت کر رہا تھا کہ اللہ کے قول” اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الاسلام دينا”تک پہنچا تو یہ آیت میرے قلب کے اندر تیر کی طرف پیوست ہو گئی میں نے انجیل کا خوب مطالعہ کیا مگر اس جیسی بات کہیں نہ مل سکی ۔میں سوچنے پر آمادہ ہی نہیں تھا کہ دنیا میں کوئی دین ہے جو تمام اور مکمل ہے۔ اسی تجسس نے مجھے کلام پاک مزید پڑھنے پر آمادہ کیا یہاں تک کہ پورا دن گزر جاتا اور میں اس کی تلاوت اور معنی پڑھتا رہتا۔
جب میں ترجمہ کے مکمل مطالعے سے فارغ ہوا تو مجھے یقین ہوا کہ دعوت حق اور بین حقیقت وہی ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا لیکن حق کو حق تسلیم کرتے ہوئے ؛میں اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ اسلام قبول کر لوں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ میں عیسائیت کے ایک بڑے منصب پر فائز تھا اچانک مال و متاع کا سلسلہ بند ہو جاتا اور ان تمام راحتوں سے یکسر محروم ہو جاتا جو مجھے ابھی میسر ہیں ۔نیز یہ کہ میرے گھر والے مجھے برداشت نہیں کرتے اور مجھے عاق کر دیتے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میں مسلمانوں کی زبان سے بالکل ناواقف اور جا ہل تھا۔ ان کی باتیں نہیں سمجھ سکتا ۔مزید یہ کہ اسلام میں بہت تکالیف ہیں ۔مثلا نماز کی ادائیگی اور روزہ جو15 گھنٹے بھوکے پیاسے رہنے کا نام ہے۔ مجھے خوف ہوتا کہ روزہ رکھنے سے میری موت ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ مجھے پورا یقین حاصل ہو گیا کہ اسلام دین برحق ہے مگر اسے قبول کرنے سے اپنے اپ کو عاجز پا رہا تھا۔
“آرتھر” کہتے ہیں اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ ایک رات اچانک میری آنکھ کھل گئی اور پیاس کا احساس ہوا، پانی پینے کے لیے مطبخ کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اچانک مجھے اپنے بدن کے کسی بھی اعضاء کے حرکت پر قدرت ہی نہیں رہی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرا پورا جسم شل ہو گیا ہو ،صرف اپنی آنکھوں کی پتلیاں دائیں بائیں کرنے پر قادر تھا ۔اس وقت مجھے انجانا سا خوف ہوا ،میں زور سے چیخ پڑا مگر میری حلق سے آواز نہ نکل سکی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ کھلی کھڑکی سے ایک سفید بادل نے میرے پورے جسم کو اپنے اندر لے لیا اور میں نے ایک آواز سنی۔
ابھی وقت آگیا ہے کہ تم اللہ تعالی کی خدمت کے لیے تیار ہو جاؤ اور یاد کرو لفظ اللہ کو ،اللہ تمہیں پکار رہا ہے۔
اس لمحہ مجھے بہت خوف محسوس ہو رہا تھا اس وقت میں اپنے تمام مفادات کو اسلام کے لیے قربان کرنے پر آمادہ ہو گیا اور رب العالمین پر ایمان لے آیا چنانچہ صبح ہوتے ہی اپنے مسلم دوست جنہوں نے مجھے دونوں کتابیں دی تھی ان کے پاس پہنچا اور ان سے درخواست کی کہ وہ بتائیں کہ میں باضابطہ اسلام میں کیسے داخل ہو جاؤں اور اسلامی شعائر کی ادائیگی کیسے کروں؟ اس طرح میں “آرتھر “سے “خالد” ہو گیا اس کے بعد میں نے عہد کر لیا کہ اللہ کا مسلمان بندہ ہو کر ہی زندگی گزاروں گا .اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس وقت میں نہ یہ صرف کہ مسلمان ہوں بلکہ داعئ اسلام بھی ہوں۔
” آرتھر” کہتے ہیں اسلام قبول کرنے کے بعد مجھے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔میری قوم اور میرے والدین نے مجھ سے مقاطہ کر لیا اور تمام عزیز و اقارب نے مجھ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور سبھوں نے مجھے احمق قرار دیا۔ لیکن میں تو اللہ کو اپنا عہد دے چکا تھا کہ اب بقیہ زندگی اس کے کہنے کے مطابق ہی گزاروں گا۔ بھلا اس عہد کو میں کیسے توڑ دیتا؟ اگرچہ فلپائن میں نو مسلموں کے ساتھ بہت مسائل ہیں۔ وہ علماء سے ان کی زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے رابطہ قائم نہیں کر پاتے۔ اس صورتحال میں: میں کسی سے قرآن کیسے سیکھ سکتا ۔ اپنی کوشش کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ اسلام کی تعلیمات کو پڑھوں اور اس کو سمجھو ں۔
سانتوس چند سطروں میں
نام: ڈاکٹر خالد سانتوس۔
پیدائش: 25فروری 1942ءجزیرہ سیبوہ،فلپائن۔
تعلیم: 1960میں انٹرنیشنل یونیورسٹی ،جامعہ ارفادیہ شہر دافاؤ۔
1968 میں شہرباجویوکی،القدس پولس الکہنوتیہ میں زیر تعلیم ۔
1972 میں انگلینڈ ،جامعہ باتلکریک میں ایم۔اے کی تکمیل ۔
تعلیمی لیاقت: تجارت اور أعمال ادارت میں پی ایچ ڈی ۔
تھیالوجی اور پروہتائ میں پی ایچ ڈی۔
1974ء میں دینیات کے فلسفے پر ایم اے۔
1974 میں دینیات کے فلسفے پر اعلی ڈگری۔
مناصب: 1968ءمیں “جمعیۃ یسوع ہالینڈ” کے کا ہن مقرر کیے گیے ۔
1970ء میں نیو یارک میں” روح القدس کے کلیسا” کے ذمہ دار مقرر کئے گئے ۔
انعامات: 1970ءمیں امتیازی انعام “الکاہن الاشہر” کے موضوع پر۔
1978ء میں “منصر اول” کا ایوارڈ ۔
جن مراکز کی سربراہی کی: 1970-1982ءتک ایشیاء میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے والی جماعت”کنیسۃالر وح القدس”کے سربراہ رہے۔
1967ء-1971ءتک انٹرنیشنل پادری برادریوں “روح القدس”کے رئیس رہے۔
(العالم الاسلامیمکۃ المکرمۃ 10-16/اگست1998ء)
(روشنی کی طرف صفحہ/ 53)


Comments are closed