img
img

سوال : اسلام میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر کیوں ہے؟ اس سے عورت اور مرد کے درمیان برابری دکھائی نہیں دیتی ؟

جواب:

پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ گواہی( testimony) کے نصاب(Courses) کو کتنے معاملات پر تقسیم کیا جا سکتا ہے؟۔
نمبر ١:

 وہ معاملات جس میں عورتوں کی گواہی بالکل قبول نہیں جیسے حدود و قصاص یعنی حد زنا ،حد قتل وغیرہ
نمبر ٢:

 وہ معاملات جن پر مرد مطلع نہیں ہو سکتے جیسے بچے کی پیدائش اور باکرہ ہونا وغیرہ اس قسم کے معاملات میں صرف ایک عورت کی گواہی قبول ہے۔ اسی طرح رمضان کے چاند کے سلسلے میں بھی ایک عورت کی گواہی قابل قبول ہے ۔
نمبر ٣. مذکورہ قسموں کے معاملات کے علاوہ دیگر معاملات میں جیسے نکاح، طلاق، وکالت ،وصیت وغیرہ میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے ساتھ قابل قبول ہے۔
اب یہ بات سمجھنا ہر معاملات میں دو عورت کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے یہ غلط ہے۔ بلکہ بہت سارے معاملات جیسے عورت کے معاملات یعنی پاکی ناپاکی، رمضان کے چاند وغیرہ دینی معاملات کے سلسلے میں ایک عورت کی گواہی بھی قابل قبول ہے
رہی بات حدود و قصاص کے معاملات چونکہ عورت جذباتی اور گھبراہٹ خوفزدہ زیادہ ہوتی ہے اور تھوڑے سے شبہ کی بنا پر حدود و قصاص جاری نہیں ہوتا چونکہ حدیث مبارک الحدود تندريء بالشبهات میں مذکور ہے اور اس بنا پر عورتوں کی گواہی حدود کے ساتھ میں قابل قبول نہیں۔
لہذا چند معاملات میں مرد اور عورت کی گواہی میں دکھائی دینے والی عدم مساوات(inequality ) اسلام کے نزدیک کسی صنفی عدم مساوات(gender inequality) کی بنا پر نہیں بلکہ یہ صرف معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے مختلف نوعیت اور مختلف کرداروں کی بنا پر ہے جو اسلام نے ان کے لیے متعین کیا ہے۔

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *