img
img

سوال : اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہے تو کیا فرشتے عبادت کے لیے کافی نہیں تھے پھر انسان کو کیوں پیدا کیا گیا ؟

جواب :
بیشک اللہ تعالی کے فرشتے اللہ کی عبادت ہی کر رہے تھے لیکن ان کی عبادت بلکل مختلف نوعیت کی تھی چونکہ فرشتوں کے مزاج میں اللہ کے حکم کے خلاف کرنے کی طاقت اور قدرت ہی نہیں ہے مثلا اگر وہ چاہیں عبادت نہ کریں یا اسمیں سستی کریں تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ عبادت کو ترک کریں. اللہ تعالی انکے اندر سے گناہ کرنے کا امکان ہی ختم فرمادیا ہے. ایسے ہی نہ انکو کبھی بھوک لگتی ہے اور نہ پیاس نہ انکے دل میں کوئ شہوانی تقاضہ پیدا ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نےانکی عبادت پر کوئ اجر و ثواب بھی نہیں رکھا کیوں کہ اگر فرشتے گناہ نہیں کر رہے ہیں تو اس میں انکا کوئی کمال نہیں ہے اور جب کمال نہیں ہے تو اجر و ثواب بھی مرتب نہیں ہوگا-

اسکی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نابینا شخص بد نگاہی سے بچ رہا ہے ظاہر سی بات ہے اسمیں اسکا کوئی کمال نہیں ہے، لیکن ایک دوسرا شخص جسکی بینائی بلکل ٹھیک ہے جو چیز چاہے گا دیکھ سکتا ہے لیکن دیکھنے کی صلاحیت موجود ہونے کے باوجود جب کسی غیر محرم کی طرف دیکھنے کا تقاضہ دل میں پیدا ہوتا ہے تو وہ فورا صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سے نگاہ نیچی کرلیتا ہے اب بظاہر دونوں نگاہ نیچے کر رہے ہیں لیکن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے پہلا شخص جو نگاہ نیچی کر رہا ہے اسکی نوعیت الگ ہے اور دوسرے شخص کی نوعیت الگ ہے-
ایسے ہی فرشتے جو عبادت کر رہے ہیں وہ ظاہرا عبادت ہے اپنے قصد اور اختیار سے نہیں ہے انسان جو عبادت کرتا ہے اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کرتے ہوے اپنے قصد اور ارادہ سے کرتا ہے-

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے مخلوق کو پیدا کیا جو اپنے ارادہ سے خدا کے خوف کے استحضار سے عبادت کریں جو کہ فرشتوں میں نہیں پائی جاتی تھی-
اسی لیے اللہ تعالی نے فرشتوں کے باوجود انسان کو پیدا کیا-

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *